شہید امیر المؤمنین ملا اختر محمد منصور (رحمه الله) کی سوانح حیات اور خوارج کے خلاف موقف پر ایک مختصر جائزہ!

عُمری مدرسہ کے باوقار شاگردوں میں، امارت اسلامیہ کے دوسرے نامزد سربراہ، شہید امیر المؤمنین ملا اختر محمد (منصور) تقبله اللہ بھی شامل تھے، جنہوں نے عملی طور پر امارت اسلامیہ کی قیادت کے فرائض عالیقدر امیر المؤمنین کے حیات میں شروع کیے اور ان کی وفات کے اعلان کے بعد، امارت اسلامیہ کے اہل حل و عقد کے معتبر افراد، علماءے کرام، جہادی رہنماؤں اور دیگر قومی شخصیات نے انہیں امارت اسلامیہ کے نئے سربراہ کے طور پر منتخب کیا۔ انہوں نے لمحۂ شہادت تک مکمل ایمانداری، متانت اور بہادری کے ساتھ اس عظیم قافلے کی رہنمائی کا بھاری فریضہ ادا کیا۔

درج ذیل سطور میں ان تقبله اللہ کی زندگی، کارناموں اور داعشی خوارج کے ساتھ ان کے مقابلے پر مختصر جائزہ لیا گیا ہے:

ولادت:

شہید ملا اختر محمد منصور تقبله اللہ، الحاج محمد جان کے بیٹے، 1347 ہجری شمسی (1968ء) میں صوبہ قندھار کے ضلع میوند کے علاقے بند تیمور میں پیدا ہوئے۔ چونکہ ان کا خاندان اپنے علاقے میں ایک متدین اور علم دوست خاندان تھا اور ان کے والد ایک علم نواز شخصیت تھے، اس لیے انہوں نے جناب منصور صاحب کی بہترین تربیت کے لیے ان کا پہلا انتخاب دینی تعلیم کو بنایا۔

تعلیم:

شہید منصور صاحب کو سات سال کی عمر میں اپنے والد کی ہدایت پر اپنے علاقے کے ابتدائی مکتب اور گاؤں کی مسجد میں دینی تعلیم کے شعبے میں شامل کیا گیا۔ چونکہ بچپن سے ہی ان میں ذہانت، فہم و فراست اور بصیرت کی علامات نمایاں تھیں، اس لیے اپنے والد کے علاوہ اساتذہ نے بھی ان کی خصوصی تربیت کی۔

چونکہ ان کا خاندان ہجرت کے دوران بلوچستان کے گردی جنگل کیمپ میں مقیم تھا، اس لیے انہوں نے کچھ عرصہ وہیں اور پھر پنج پای کے علاقے میں دینی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ کوئٹہ چلے گئے، جہاں انہوں نے کوئٹہ شہر اور بعد میں عبداللہ خان کراس کے علاقے میں ایک مدرسے میں دینی کتابیں پڑھیں۔ بعدازاں، انہوں نے دینی علوم کی تلاش میں پشاور کا رخ کیا اور وہاں کچا گھڑا اور دیگر علاقوں میں دینی اسباق پڑھے اور ایک موقوف الیہ کا دورہ پشاور کے جلوزئی کیمپ میں مکمل کیا۔

جب وہ دینی تعلیم میں مصروف تھے، اسی دوران افغانستان کی سیاسی قیادت کمیونسٹوں کے ہاتھ میں چلی گئی اور افغان مجاہد عوام نے ان کے خلاف اسلامی بغاوت کا آغاز کر دیا۔

جہاد اور سیاسی جدوجہد:

1978ء میں افغانستان پر سوویت حملہ آوروں کے جارحانہ حملے کے بعد، افغان مجاہد عوام نے ان کے خلاف اسلامی مزاحمت شروع کی۔ جناب منصور صاحب نے، جو اس وقت اٹھارہ سال کے تھے، ایک باصلاحیت اور بہادر نوجوان کے طور پر شعوری طور پر اپنے دین اور وطن کے دفاع کے لیے سوویت حملہ آوروں اور داخلی کمیونسٹوں کے خلاف مسلح جہاد کی راہ اختیار کی۔

وہ سال بھر کبھی دینی اسباق میں مصروف رہتے اور جب سبق ختم ہوتے تو جہادی محاذوں کا رخ کرتے۔ 1985ء میں جہادی سرگرمیوں کے لیے انہوں نے قندھار صوبے کے مشہور جہادی کمانڈر شہید قاری عزیزاللہ کی جبهہ کو اپنا جہادی سنگر منتخب کیا اور ضلع پنجوائی کے علاقے پاشمول میں مشہور جہادی شخصیت الحاج ملا محمد حسن اخوند کی سرپرستی میں جہادی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔

محترم منصور صاحب نے متعدد عسکری کاروائیوں میں فعال حصہ لیا اور ایک بار 1987ء میں قندھار صوبے میں روس کے ایک اسٹریٹجک مرکز پر براہ راست کاروائی کے دوران اس طرح زخمی ہوئے کہ ان کا جسم تیرہ جگہوں پر زخمی تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا عطا کی۔ دوسری بار 1997ء کی مئی میں، اسلامی امارت کی حکمرانی کے دوران مزار شریف کے ہوائی اڈے پر زخمی ہوئے اور اس زخمی حالت میں مخالفین کے ہاتھوں اسیر بھی ہوئے۔

طالبان کی اسلامی تحریک میں شمولیت:

1992ء میں افغانستان میں کمیونسٹ نظام کے خاتمے اور خانہ جنگی کے آغاز کے بعد، جناب منصور صاحب نے اپنی جبهہ کے دیگر مخلص مجاہدین کی طرح ہتھیار رکھ دیے اور اقتدار کے لیے شروع ہونے والی ناجائز جنگ کے تسلسل میں کسی کا ساتھ نہ دیا۔ انہوں نے عام زندگی کو ترجیح دی اور ہر قسم کی تنظیمی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی، جبکہ کچھ علمی اور تربیتی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

1415 ہجری (1994ء) میں جب امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمة اللہ علیه نے طالبان کی اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی، ملا اختر محمد منصور صاحب اس وقت پشاور کے جلوزئی کیمپ کے امینیہ مدرسے میں شیخ الحدیث مولوی شہاب الدین دلاور صاحب اور مشہور مدرس مرحوم سید قریش بابا کے پاس دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور دیگر طالبان بھی ان کے ساتھ تھے۔

جب انہوں نے ریڈیو پر طالبان کی تحریک کے قیام کی خبر سنی تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس نئی تحریک کی حقیقت جاننے کے لیے چند افراد کو قندھار بھیجنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے دو ساتھیوں کو قندھار روانہ کیا، جنہوں نے اسلامی تحریک کے رہنما اور عہدیداروں سے ملاقات کی اور مکمل اطمینان اور تسلی کے بعد اپنے مدرسے کے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ واقعی طالبان اور مجاہدین کی تحریک ہے۔

اس کے بعد ملا اختر محمد منصور اور ان کے دیگر ساتھی روانہ ہوئے۔ جس رات وہ بولدک پہنچے، طالبان نے تختہ پل کا علاقہ فتح کیا تھا اور قندھار کی طرف بڑھ رہے تھے۔ بولدک میں ملا اختر محمد منصور اور ان کے ساتھی طالبان نے آپس میں ایک اجلاس کیا تاکہ اپنا امیر منتخب کریں۔ مشاورت کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ملا اختر محمد منصور صاحب کو اپنا امیر منتخب کیا اور پھر سب نے ان کی قیادت میں اسلامی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔

اسلامی امارت کے منتخب امیر کے طور پر انتخاب:

جب 14 شوال المکرم 1436 ہجری بمطابق 30 جولائی 2015ء کو امارت اسلامیہ کی رہبری شوریٰ نے مرحوم امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمة اللہ علیه کی وفات کا باضابطہ اعلان کیا، تو امارت اسلامیہ کی رہبری شوریٰ کے ارکان، مشائخ اور معزز علمائے کرام پر مشتمل ایک اجلاس ہوا جو اہل حل و عقد کی حیثیت کا حامل تھا۔ محترم منصور صاحب کی موجودگی کے بغیر طویل بحث و مباحثہ، اور مشاورت کے بعد انہیں امارت اسلامیہ کے نئے امیر کے طور پر منتخب کیا گیا اور سب نے یک آواز ہو کر ان کے ساتھ بیعت کی۔

امریکی حملے کے خلاف مسلح مزاحمت:

سات اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکی حملے کے بعد، محترم منصور صاحب نے حملہ آوروں کے خلاف مسلح جہاد شروع کیا۔ امریکہ کے خلاف ان کے جہاد کا ایک قابل ذکر مرحلہ قندھار کے ہوائی اڈے کے اطراف میں امریکی بمباری کے مقابلے میں مزاحمت اور امریکہ کے پٹھوؤں کے ساتھ براہ راست لڑائیاں ہیں۔ دیگر جہادی کارناموں کے علاوہ، 2003ء اور 2008ء میں صوبہ قندھار صوبے کے مرکزی جیل کو مجاہدین کے ہاتھوں دو بار حیران کن انداز میں توڑا گیا، جس کے نتیجے میں دونوں بار مجموعی طور پر ڈیڑھ ہزار سے زائد اسیر مجاہدین دشمن کی قید سے رہا کرا لیا گیا، یہ سب کارنامے منصور صاحب کی سربراہی میں انجام پائے۔

داعش کے ساتھ مذاکرات کا آغاز:

2015ء میں جب داعش نے ولایت خراسان کے قیام کا اعلان کیا، ملا اختر محمد منصور صاحب نے داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں منصور صاحب نے داعش سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں طالبان کی قیادت کو تسلیم کرے اور جہادی صفوں کو متحد رکھے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جہادی صفوں کی تقسیم مجاہدین کی کامیابیوں کو ختم کر دے گی اور کفار کے لیے خوشی کا باعث بنے گی۔

اختلافات کی گہرائی:

اگرچہ منصور صاحب نے کوشش کی کہ داعش کو سمجھایا جائے کہ وہ امت مسلمہ کے درمیان اختلافات اور کفار کی خوشی سے باز آئے، لیکن داعش نے اسے قبول نہ کیا اور افغانستان کے مشرقی صوبوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ کچھ مواقع پر داعش نے طالبان کے خلاف حملے کیے اور بالآخر امارت اسلامیہ نے بھی ان کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔

اسلامی امارت کا عسکری ردعمل:

داعش کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے منصور صاحب نے خصوصی دستے تشکیل دیے۔ صوبہ ننگرہار میں داعش کے خلاف عسکری آپریشنز شروع کیے اور ان کے مراکز کو تباہ کیا۔ امارت اسلامیہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ داعش جہادی صفوں کو تقسیم کرتی ہے اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرتی ہے۔

داعش کے ارکان کا تسلیم ہونا:

امارت اسلامیہ کے دباؤ کے نتیجے میں، داعش کے کچھ رہنما اور جنگجو داعش سے الگ ہوئے اور دوبارہ امارت اسلامیہ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ امارت اسلامیہ کی قیادت کے ساتھ ہم آہنگی اور داعش کے اصلی گھناؤنے چہرے کی شناخت کی وجہ سے انہوں نے داعش کے ساتھ اپنی بیعت توڑ دی اور ملا اختر محمد منصور تقبلهٰ اللہ کی قیادت کو قبول کیا۔

قیادت کی خصوصیات:

• اتحاد کے لیے عزم: منصور تقبله اللہ نے امارت اسلامیہ کے مختلف کمانڈروں کے درمیان اتحاد کے لیے کوششیں کیں اور مکمل طور پر ایک متحد، منظم اور یکجہتی کی حامل صف تشکیل دی۔

• امن و جہاد کا توازن: انہوں نے امن مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے، لیکن ساتھ ہی ساتھ حملہ آوروں کے خلاف جہاد کو جاری رکھا۔

• خوارج کے خلاف فیصلہ کن موقف: منصور تقبله اللہ نے خوارج کے خلاف سخت موقف اپنایا، جو امارت اسلامیہ کے اصولوں اور امت کے اتحاد کے لیے ایک اہم اقدام تھا۔

شہادت:

بالآخر یہ مخلص اور فداکار مجاہد، جو امارت اسلامیہ کے سربراہ کے طور پر منتخب ہونے کے بعد ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں کر سکا تھا، 21 مئی 2016ء کو امریکی ڈرون حملے میں شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا۔ تقبله اللہ۔

Author

Exit mobile version