ایک وجیہ نوجوان، خوبصورت چہرہ، غیرت مند اور بارعب مجاہد، شہید سعید، سید فرید اللہ حذیفہ ولد سید مبین ولد سید جیلانی صوبہ میدان وردگ ضلع دایمیرداد کے گاؤں تنگی سیدان میں ۲۰۰۳ء میں ایک دیندار اور جہادی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
حذیفہ نے اپنی ابتدائی دینی اور عصری تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسہ اصحاب صفہ اور اور شہید مولانا غلام درویش سکول سے شروع کی۔
شہید حذیفہ نے ابھی پوری طرح جوانی کی دہلیز پر قدم بھی نہیں رکھا تھا کہ وہ طالبان کی اسلامی تحریک کے فعال رکن بن گئے۔ انہوں نے اپنی جہادی مصروفیات کے ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی مڈل تک پوری کر لی۔ تب ان پر جہاد کی محبت غالب آ گئی اور وہ سیدھا جہادی مراکز چلے گئے اور ضلع چک کے درہ بکسمند کے عسکری کمانڈر جہادوال کی صف میں باضابطہ طور پر جہاد شروع کر دیا۔
حذیفہ شہید بہت کم وقت میں ہی ایک گوریلا اور تیز و ترار مجاہد بن گئے۔ حذیفہ اور ان کے ساتھیوں نے صلیبی اتحادیوں اور ان کے غلاموں پر زمین تنگ کر ڈالی اور ہر روز اور ہر جانب سے ان پر تند و تیز حملے کرتے رہے۔
شہید حذیفہ پاکیزہ سوچ، قوی عزائم اور اعلی صلاحیتوں کے حامل، متقی اور ایک مدبر شخصیت تھے۔
شہید حذیفہ نے غاصب قوتوں کے خلاف دین و وطن کے دفاع میں ان تھک محنت کی اور اپنے عظیم مقصد (اعلائے کلمۃ اللہ)، رضائے الہٰی، خودمختاری اور اسلامی نظام کو مستحکم کرنے کی راہ میں انہوں نے جسمانی اور ذہنی طور پر خود کو تھکا کر رکھ دیا۔
شہید حذیفہ نے غاصبین اور اسلامی نظام کے دشمن خوارج کو کچلنے کے لیے کئی بار صوبہ ننگرہار کا سفر کیا اور داعشی خوارج کے خلاف کئی گرم معرکوں میں حصہ لیا اور اسلامی نظام کے بہت سے سخت ترین اور بد بین دشمنوں کو اپنے ہاتھوں جہنم واصل کیا اور اس طرح اپنے اور دیگر مسلمانوں کے دل ٹھنڈے کیے۔ جہادی کاروائیوں کے دوران کئی بار سخت زخمی ہوئے اور اللہ کی راہ میں کئی بار اپنے جسم کا مبارک خون بہایا۔
شہید حذیفہ اپنے وقت کے ایک وجیہ نوجوان، خوبصورت، غیرت مند اور با رعب مجاہد تھے، ہمیشہ حق بات کہی اور حق بات کہنے میں کبھی کسی کی پرواہ نہ کی۔
امریکی وحشیوں اور ان کے غلاموں کی جانب سے ۵ مئی ۲۰۲۰ء کو ضلع چک کی طرف ایک بڑا زمینی اور فضائی آپریشن کیا گیا تاکہ ضلع چک کو اپنے زیر تسلط لے آئیں اور وہاں اپنے مذموم مقاصد پر عمل کریں، لیکن رب ذو الجلال کا فیصلہ مختلف تھا۔
شہید حذیفہ اور ان کے ساتھ جہادی ساتھی دشمن کے مقابل ڈٹ گئے۔
سخت مقابلے اور گرم معرکے کے بعد اسی دن حذیفہ شہید اور چند دیگر ساتھیوں پر ڈرون حملہ ہوا اور انہوں نے اپنی خوبصورت جوانی کو ٹکڑے ٹکڑے کروا کر رب کی ملاقات کے لیے بطور نذرانہ پیش کر دیا۔
ان کے بچھڑ جانے سے بہت سے دل ٹوٹے اور بہت سے آنسو بہے۔ شہید حذیفہ تقبلہ اللہ وہ تھے کہ جن کے فراق نے دوستوں اور دشمنوں کو رلا دیا۔
شاید حذیفہ شہید کو ابھی تک شریک حیات اسی لیے نہیں ملی تھی کیونکہ اس نے اس فانی دنیا سے منہ پھیر لینا تھا۔
نحسبہ کذالک واللہ حسیبہ
شہید حذیفہ کے ایک ساتھی بیان کرتے ہیں:
یہ نوجوان (حذیفہ) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اتنا مخلص اور غرق تھا کہ اپنے مستقبل کے بارے میں اچھی باتوں کی پیشین گوئی کرتا تھا۔ ایک ساتھی بتاتے ہیں کہ ایک دن تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے، اتنی دیر تک سجدہ کیا کہ میں پھر سے سو گیا، اور پھر کچھ وقت کے بعد اس کے رونے اور آہ و زاری کی آواز سے بیدار ہو گیا۔
قبلہ کی جانب منہ کیے وہ بیٹھے تھےاور ہاتھ رب عظیم کے سامنے پھیلا رکھے تھے، اور چہرے پر تیز بارش کی مانند آنسو بہہ رہے تھے کہ اچانک اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔
میں نے اس سے حال پوچھا تو اس نے کہا: میں نے یہ بات کسی اور کو نہیں کہی، میں نے خود سے عہد کیا ہے کہ اس سال رمضان میں اپنے رب کے دیدار کے لیے چلا جاؤں گا۔
حذیفہ ایک مجاہد نوجوان تھا اور اپنے رب کے ساتھ خاص راز و نیاز کیا کرتا تھا اور وہ اپنے رب کے ساتھ کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے بہت جلدی میں تھا۔
حوروں نے بھی اپنے رب سے سوال کیا اور اپنے محبوب اور پیارے مجاہد سے ملنے کے لیے اسے رب سے مانگ لیا۔ تو یہ تقدیر کا فیصلہ تھا۔ دین و وطن دشمنوں سے جہاد کے پاکیزہ معرکے میں اس نے شہادت کا اعلیٰ مقام حاصل کر لیا اور اپنے رب سے کیا وعدہ وفا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں کے وعدے بھی سچے کر دکھاتا ہے۔
مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عٰهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضٰى نَحْبَهُۥ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (الاحزاب: ۲۳)
ایمان والوں میں ایسے جوانمرد بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا نذرانہ پورا کر دیا، اور کچھ وہ ہیں جو ابھی انتظار میں ہیں۔ اور انہوں نے (اپنے ارادوں میں) ذرا سی بھی تبدیلی نہیں کی۔
تقبلہ اللہ تعالیٰ!