عالمی برادری کی جانب سے امارت اسلامیہ کی راہ میں کھڑی کی گئیں رکاوٹیں

✍️ سعید الفاتح

اگرچہ اب تک دنیا میں امریکہ کی بالادستی جاری ہے لیکن افغانستان سے شکست کھانے کے بعد اس کی بالادستی ختم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ بالادستی ایک ایسے ملک کی تسلیم کی جاتی ہے کہ سیاسی، معاشی اور عسکری ہر شعبے میں دیگر ممالک جس کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوں۔

امارت اسلامیہ افغانستان نہ تو اس کے تشکیل کردہ سیاسی نظام کو بطور ماڈل قبول کرتی ہے نہ ہی اس کے معاشی اصولوں کو مانتی ہے اور نہ ہی یہ بین الاقوامیت (Internationalism) کے اصولوں کی پیروی کرتی ہے۔

یہاں امریکہ کے خلاف دیگر سیاسی طاقتیں بھی منظرِ عام پر آ رہی ہیں جیسے برکس (BRICS) کے رکن ممالک (برازیل، روس، انڈیا، چین، جنوبی افریقہ) وغیرہ۔

ان کی ایک مخصوص مشترکہ کرنسی اور اصول ہیں اور وہ امریکہ کو طاقت کی مسند سے اتارنے کی خاطر کام کر رہے ہیں۔

یہاں گزشتہ بیس سالوں میں امریکہ کے ساتھ عالمی برادری کا تعاون صرف اسی وجہ سے تھا کہ سب ڈرتے تھے کہ کہیں ایسا نظام قائم نہ ہو جائے جو ان کے مفادات کے لیے خطرہ ہو اور یہ دنیا میں ایک ایسے دین کا مرکز نہ بن جائے جس کے پیروکاروں کی پوری دنیا میں کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔

اب جبکہ یہ مرکزیت قائم ہو چکی ہے اور ایک ملک آزادی حاصل کر چکا ہے تو صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ تمام ممالک اس سے خوفزدہ ہیں اور سب کے سب موجودہ نظام پر دباؤ ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں، ان سب میں کسی نے داعش نامی انٹیلی جنس پراکسی گروپ تشکیل دیا اور اس کی فنڈنگ کی، کسی نے سابقہ انتظامیہ کے بدعنوان اشخاص کو جبہہ کے نام پر پناہ دی اور کوئی حیثیت تسلیم کروائی جانے کی کوششوں سے فائدہ اٹھا کر دباؤ ڈالنے لگا۔

امارت اسلامیہ نے ان تمام مشکلات اور بحرانوں کا ادراک کیا اور گزشتہ تین سالوں کے سفر میں درج ذیل رکاوٹیں دور کیں:

۱۔ داعش نامی انٹیلی جنس پراکسی گروپ جسے عالمی برادری یہاں فعال کرنا چاہتی تھی، ختم ہو گیا کیونکہ پچھلے تین سالوں میں امارت اسلامیہ کے جانباز مجاہدین نے ان کے سرکردہ اشخاص مار ڈالے اور اس گروپ کو خطے سے مکمل طور پر مٹ جانے کے قریب کر دیا۔

۲۔ سابقہ بدعنوان انتظامیہ کے مفرور ین جو غیر ملکیوں کی مدد سے دوبارہ جنگ کا ارادہ رکھتے تھے، مفلوج کر دیے گئے۔ عالمی برادری کو بھی ان کا اصل چہرہ واضح کیا گیا اور داخلی طور پر بھی ذہن سازی کی گئی تاکہ نوجوان پھر سے ان کے دھوکے اور فریب کا شکار نہ ہو سکیں۔

۳۔ تاجروں کے فرار کے ذریعے سے بھی عالمی برادری ملکی سرمایہ نکالنا چاہتی تھی لیکن ان کی خواہشات کے برخلاف امن کے قیام کے بعد دیگر سرمایہ کار بھی ملک میں آئے۔

۴۔ ماہرین تعلیم کے فرار کے معاملے میں الحمد للہ تمام علماء اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں پر حاضر ہوئے۔

ان کے علاوہ دیگر رکاوٹیں بھی موجود تھیں لیکن امارت نے تین سالوں کے اس سفر میں مسائل حل کیے اور اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کر دیں۔

الحمد للہ

Author

Exit mobile version