اللہ تعالیٰ نے ہم سے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے، اور امریکہ نے شکست کا، دیکھتے ہیں کہ کون سا وعدہ سچا ثابت ہوتا ہے!
نوجوان عمر نے ابھی اپنے کندھوں سے راکٹ اتارا ہی تھا۔ سوویت یونین کے خلاف عظیم معرکوں کے زخم اب بھی اس کے وجود پر نمایاں تھے۔ اس یتیم نوجوان کا احساس اور دوراندیش فکر، اُسے ایک بار پھر اپنی الماری میں رکھی ہوئی کتابوں کی طرف کھینچ لے گیا۔ ابھی چند صفحات ہی پلٹے تھے کہ اس سرزمین پر، جو سرخ آندھی سے نکلی ہی تھی، دوبارہ سیاہ بادل چھا گئے۔
اس کمیونسٹ نظریے کے خلاف جیتی گئی جنگ کے دعوے دار اور جہاد و قربانیوں کے نامور مجاہدین بہت جلد اپنی خواہشات اور غرور کا شکار بنے اور آپس میں دست و گریبان ہوگئے۔ اصل مقصد — ایک مکمل اسلامی نظام کا قیام — محض ایک نعرہ بن کر رہ گیا، اور دس لاکھ شہداء کا لہو بازارِ مفادات کی ترازو میں تولا جانے لگا۔ ظلم، وحشت، لوٹ مار اور جارحیت نے پورے ملک کو بے امنی کی آگ میں جھونک دیا۔ کسی کا جان، مال یا عزت محفوظ نہ رہی۔
یہ منظرنامہ عمر کی روح پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔ وہ بے چین تھا، اور اکثر اپنے خیالات کے سمندر میں اس مظلوم قوم کی نجات کی کشتی کو رواں دواں رکھتا۔ ایمان، حالات، ضمیر اور مظلوم کی آہ نے اُسے ایک بار پھر اپنی کتابوں سے ناتا توڑنے پر مجبور کیا۔ عمرِ ثالث نے شر و فساد کی جڑیں کاٹنے کے لیے افغانستان کی سرزمین پر تحریک اسلامی طالبان کی بنیاد رکھ دی۔
مجاہد عمر کا یہی چھوٹا سا قافلہ، جس میں چند مخلص رجال شامل تھے، اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم لشکر میں بدل دیا — ایسا لشکر کہ فساد و فتنہ کی تمام ملیشیائیں اس کے سامنے ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں۔ اس لشکر نے ملک کو ان بدکردار چہروں اور ان کی ستم کاریوں سے نجات دلائی، امارتِ اسلامی قائم ہوئی، اور ملک پر سفید محمدی پرچم لہرا دیا گیا۔
طویل عرصے کے بعد، افغانستان کو بے مثال امن اور حقیقی افغان حکمران نصیب ہوئے۔
مغرب اور عالمی کفر، جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے، کسی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ دنیا میں ایک ایسا اسلامی نظام قائم ہو، جو ان کے مفادات کے لیے خطرہ بنے، حقیقی اسلام کا نمائندہ ہو، جمہوریت اور سیکولرازم کا اصل چہرہ بے نقاب کرے اور جس کی تقلید باقی اسلامی دنیا بھی کرے۔ انہیں یہ اندیشہ لاحق تھا کہ کہیں مغرب سے لے کر انڈونیشیا اور ہندوستان تک ایک قیادت اور خلافت قائم نہ ہو جائے۔
اسی خطرے کے پیش نظر، ۱۱ ستمبر کا بہانہ بنا کر وقت کے فرعون جارج بش نے افغانستان پر حملے کی تیاری کی، اور اپنی اس جنگ کو ’’نویں صلیبی جنگ‘‘ قرار دیا۔
عمرثالث ؒ نے اپنے ان بھائیوں کا احسان نہیں بھلایا، جو روسی یلغار کے خلاف جہاد کے لیے دنیا کے کونے کونے سے آئے تھے — یہ امت کے وہ گمنام سپوت تھے، جنہوں نے عرب کی پرآسائش زندگی، گھر بار، والدین اور بچے چھوڑ کر جہاد کی سختیوں کو گلے لگایا تھا۔ عمرؒ نے اپنی حکمرانی کو ایک باعزت مہمان پر قربان کیا — وہ مہمان جس نے عصر حاضر کے ھبل بت کو پاش پاش کیا۔
جب صلیبی اتحاد نے امریکہ کی قیادت میں ہمارے پاک وطن پر یلغار کی، تو ظلم و بربریت کا ایک نیا باب کھل گیا۔ وحشی حملہ آور بھوکے بھیڑیوں کی طرح افغان غیرت مند قوم کو چیرنے لگے۔ مسجد، عالم اور مدرسے کے خلاف زبردست جنگ چھیڑی گئی۔ رات کی چھاپے اور طیاروں کی دھاڑ نے خواتین، بوڑھوں اور بچوں کے سکون کو چھین لیا، ہر صبح ایک نئے غم و ماتم لے کر آتی۔
ملک کے کونے کونے میں عمری لشکر نے منظم ہو کر چھوٹے چھوٹے حملوں کا آغاز کیا۔ نوجوان، جو اللہ کی محبت میں غرق تھے، استشہادی قافلوں میں شامل ہوتے گئے۔ ملک قابضین کے لیے دہکتا تنور بن گیا۔ پیلے گیلن کے دھماکے چند لمحوں میں دنیا کی جدید ٹیکنالوجی کو مٹی میں ملا دیتا۔ استشہاد اور کار بم کے لاہوتی آواز، فولاد اور کنکریٹ کی دیواروں کے پیچھے چھپے صلیبیوں کی نیندیں اڑا دیتی، گھات لگائے مجاہدین کی ہر گولی ایک قابض کو اپنے ساتھ فنا کردیتی، نفوذی مجاہدین نے شہری جنگ کی حکمت عملی سے دشمن کے لیے زمین تنگ کر دی۔
اسی دوران، عمر ثالث ؒ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ وہ اپنے قافلے کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر، رب کی لقاء سے مشرف ہوئے۔ لیکن اپنے پیچھے ایک متحد، منظم اور مدبر قیادت اور لشکر چھوڑ گئے، جن کے ارادے خزاں کی آندھیوں سے متزلزل نہ ہوئے۔
بیس سال تک حق و باطل کی ایسی جنگ جاری رہی جس پر دنیا حیران و پریشان تھی۔ امریکہ اور نیٹو نے اپنی تمام طاقتیں آزما لیں۔ افغانستان کو ایک جنگی تجربہ گاہ میں بدل دیا گیا۔ لیکن پھر بھی، عمرثالث ؒ کے ہاتھوں تربیت یافتہ وہ طالب اور مجاہد، جنہیں زمین پر جینے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا تھا، انہوں نے دنیا کو ۱۸ ماہ تک مذاکرات کی میز پر بٹھائے رکھا۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی فریق سے اتنے طویل مذاکرات کیے گئے۔
رب ناصر نے اپنی نصرت کے فرشتے بھیجے۔ فتوحات کی لہر اٹھی۔ بڑی بڑی تحصیلیں اور اضلاع مجاہدین کے قبضے میں آ گئے۔ جنگ نے مرکز کا رخ کیا۔ ایک کے بعد دوسرا صوبہ، مختصر وقت میں، بغیر توقع کے، فتح ہوا۔ رب سموٰت کا وعدہ نصرت تکمیل ہوا۔ ملک آزاد ہوا، اسلام کے لشکر کابل میں داخل ہوئے۔ طاغوتی افواج نے اپنے آقا کی آغوش میں پناہ لی۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچ ثابت ہوا، اور عمرثالث ؒ کی پیش گوئیاں پوری ہو گئیں۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔
عمرثالث ؒ امت پر اللہ کی رحمت کا سایہ تھے۔ وہ ایک طلسماتی شخصیت تھے۔ ایسا لگتا نہ تھا کہ وہ اس زمانے کے آدمی ہیں۔ وہ آزمائشوں میں پیدا ہوئے، آزمائشوں میں پروان چڑھے اور آزمائشوں میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بابرکت ہاتھوں سے وقت کی فرعونی طاقت کو ذلت آمیز شکست دی۔ انہوں نے امت کو صدیوں بعد اسلام کے اصل مفاہیم اور اصطلاحات سے روشناس کروایا۔ ثابت کیا کہ عصر حاضر میں بھی اسلام کا نفاذ ممکن ہے اور دنیا کے مسائل کا واحد حل اسی میں مضمر ہے۔
عمرثالث ؒ کی زندگی سراسر فخر تھی — ان کا جہاد، جدوجہد، استقامت، ایثار، ہجرت، قیادت، اور ان کی شہادت — یہ تمام امور قابل فخر تھے اور ہیں۔
ایک عرب استاد نے اپنے مجاہدین کو تربیت دیتے ہوئے کہا: اپنے ایمان اور عقیدے کو ملا محمد عمرؒ کے سانچے پر ڈھالو۔ وہ وقت یاد کرو جب امریکہ نے افغانستان پر یلغار کی، ملک کے ہر شہر پر بمباری ہو رہی تھی، مجاہدین کندهار اور دیگر اسٹریٹیجک مقامات چھوڑنے پر مجبور تھے، ۵۲B کی گھن گرج نے آسمانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا، ہر طرف شہداء کے جسم خاک و خون میں لت پت تھے، لیکن عمرثالث ؒ اس وقت بھی اپنے مجاہدین کو نصرت و فتح کی بشارتیں دے رہے تھے۔
عمرثالث ؒ اکیسویں صدی کے حیاء، تقویٰ دیانت اور جہاد کا پیکرِ مجسم، مجدد اور امت کے ماتھے کا جھومر تھے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔