صحابہ کرام کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ عدل، رحم، رحمدلی، اخلاق، اور دین اسلام کے قیام میں سے سب سے بڑھ کر شمار ہوتے ہیں۔
عمر بن عبدالعزیزؒ کے عدل و خلافت پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں، کسی نے بھی عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکومت پر تنقید نہیں کی ہے، خلفاء راشدین اور حضرت معاویہؓ کے بعد ان کی حکومت مثالی حکومت تھی۔
ان کی خلافت میں خارجی فکر کے حامل لوگ موجود تھے، جو حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے دور سے چلے آ رہے تھے اور انہوں نے اسلامی تاریخ میں مختلف اوقات میں خلافت اسلامی سے بغاوت کی تھی۔
ابتداء میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان کے ساتھ نرمی اور حسن اخلاق کا رویہ اپنایا اور کوشش کی کہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ان کی اصلاح کریں۔
اس دعوت اور صلہ رحمی کے نتیجے میں، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے عدل، تقویٰ اور نرم رویے کی وجہ سے بہت سے خوارج کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ تشدد کے بجائے اسلامی اصولوں کی طرف رجوع کریں اور اپنی انتہا پسندانہ سرگرمیوں سے باز آجائیں۔
لیکن خوارج کی ایک بڑی تعداد اور اس دور کے دیگر انتہا پسند گروہوں نے پھر بھی عمر بن عبدالعزیزؒ سے کینہ اور دشمنی کا رویہ برقرار رکھا۔
جب انہوں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا عدل، شفقت اور صلہ رحمی دیکھی، تو بجائے اس کے کہ وہ صحیح راستے پر آتے، انہوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے باطل نظریات کو فروغ دینا شروع کردیا، مختلف علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ، طاقت اور اقتدار کے حصول کے لیے انہوں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے احکامات کو اپنے مفادات کے لیے ایک خطرہ سمجھا۔
جب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کوشش کر رہے تھے کہ لوگوں کے مابین اتحاد اور انصاف کے ماحول میں حکومت کریں، خوارج نے اسے اپنے اثر و رسوخ کے کم ہونے کا سبب سمجھا، حتیٰ کہ انہوں نے آذربائیجان کے کچھ علاقوں میں بغاوتیں شروع کر دیں اور ہر اس شخص کو کافر قراردیا جو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی حکومت کو مانتایا ان کی بیعت میں شریک تھا، ان بغاوتوں کے دوران، انہوں نے اپنے ظلم و ستم کے ذریعے بہت سے مسلمانوں کا خون بہایا۔
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے پھر بھی کئی بار انہیں اسلام کے صحیح مفہوم و تعلیمات کی دعوت دی، لیکن خوارج اپنے انتہا پسندانہ موقف سے پیچھے نہ ہٹے، آخر کار امیر المؤمنین نے ان کے خاتمے کے حوالے سے حکم جاری کیا اور فوج کے کمانڈر ابن حاتم کو حکم دیا کہ ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا جائے۔
ابن حاتم نے امیر المؤمنین کے حکم پر عمل درآمد کیا اور اپنی اسلامی فوج کے ذریعے خوارج کو اس طرح ختم کیا کہ اس علاقے میں دوبارہ آج تک ان کا وجود نہ رہا۔
اگرچہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عدل، اصلاحات اور عوام کی بھلائی کے لیے بے شمار کام کیے، لیکن خوارج اپنے سخت گیر عقائد اور اموی خلافت کے ساتھ پرانے اختلافات کی وجہ سے عمر بن عبدالعزیز کے خلاف بھی بغاوت پر آمادہ ہو گئے تھے۔