غزوات النبی ﷺ اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق! آٹھویں قسط

ابو ریان حمیدی

رمضان کی سترہویں شب پیش آنے والے واقعات:

لشکرِ اسلام مغرب کے وقت رمضان کی سترہویں تاریخ کو جمعہ کی شب بدر کے مقام پر پہنچا، اور بدر کے چشمے کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ اسی رات جو واقعات پیش آئے، وہ آپ کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں۔

جاسوسی و نگرانی:

اسی مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، لشکر کی صورتحال جاننے کے لیے نکلے۔ قریش کے لشکر کے آس پاس کے علاقوں میں ایک عرب بوڑھے شخص کو دیکھا، اور اس سے مکہ کے لشکر اور اسلامی لشکر کے بارے میں دریافت کیا۔

اس بوڑھے نے کہا: پہلے آپ اپنا تعارف کروائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ہمیں خبر دو، پھر ہم بھی اپنا تعارف کرائیں گے۔ بوڑھے نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ مدینہ کا لشکر فلاں دن روانہ ہوا ہے، تو آج وہ فلاں مقام پر ہوگا۔ اس نے وہی مقام بتایا جہاں اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا۔

پھر اُس بوڑھے شخص نے مزید کہا: قریش فلاں دن روانہ ہوئے تھے، تو آج وہ فلاں مقام پر ہوں گے۔ اُس نے وہی مقام بتایا جہاں قریش نے پڑاؤ کیا تھا۔

پھر اُس نے پوچھا: آپ لوگ کس قبیلے سے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہم پانی سے ہیں، اور پھر وہاں سے واپس تشریف لے گئے۔

اسی دن شام کے وقت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر بن عوام، علی بن ابی طالب، سعد بن ابی وقاص اور چند دوسرے صحابہ کرام کو بھیجا تاکہ لشکرِ کفار کی خبر لائیں۔ اتفاقاً اُن کی ملاقات قریش کے دو سقاؤں (پانی لانے والوں) سے ہو گئی۔ وہ دونوں صحابہ کرام اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے، تو صحابہ کرام نے ان دونوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔

چونکہ صحابہ کرام کو ابھی بھی امید تھی کہ شاید ابو سفیان کا قافلہ بھی یہیں کہیں موجود ہو، اس لیے انہوں نے قافلے کے بارے میں سوالات شروع کیے۔ وہ دونوں کہتے رہے کہ ہمیں قافلے کے بارے میں کچھ علم نہیں، ہم مکہ کے لشکر کے سقّا ہیں۔ مگر صحابہ کرام اُنہیں مارتے اور یہ اقرار کروانے کی کوشش کرتے رہے، تاکہ وہ مجبور ہو کر جھوٹ کہیں کہ ہم قافلے کے آدمی ہیں اور قافلہ یہیں موجود ہے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب وہ سچ بولتے ہیں تو تم انہیں مارتے ہو اور جب وہ جھوٹ بولتے ہیں تو چھوڑ دیتے ہو؟ یہ قریش کے لوگ ہیں۔‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے پوچھا: لشکرِقریش نے کہاں پڑاؤ ڈالا ہے؟

قیدیوں نے کہا: وہ سامنے اُس ٹیلے کے پیچھے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: قریش کے کتنے افراد ہیں لشکر میں؟

قیدیوں نے جواب دیا: بہت زیادہ ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنے زیادہ؟

قیدیوں نے کہا: ہمیں صحیح تعداد کا علم نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟

انہوں نے کہا: ایک دن نو (۹) اونٹ، دوسرے دن دس (۱۰) اونٹ ذبح کرتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لشکر کی تعداد نو سو سے ہزار کے درمیان ہے اور یہی اندازہ درست ثابت ہوا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں سے فرمایا: فمن فیهم من أشراف قریش؟

یعنی: لشکر میں قریش کے سرداروں میں سے کون کون ہے؟

قیدیوں نے جواب دیا: عتبہ، شیبہ، حکیم بن حزام، ابو جہل، امیہ بن خلف، حارث بن عامر، خویلد بن نوفل اور دیگر سردار۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: مکہ نے تمہارے سامنے اپنے جگر کے ٹکڑے بھیجے ہیں۔

حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کا مشورہ:

جب یہ معلومات حاصل ہوچکیں تو حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس جگہ پڑاؤ ڈالنے کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم اُس حکم کی تعمیل کے پابند ہیں، نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں یا یہ فیصلہ آپ کی ذاتی جنگی حکمت عملی کے تحت ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ میری اپنی جنگی تدبیر ہے۔

حباب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔ ہمیں قریش کے قریب ترین چشمے پر پڑاؤ ڈالنا چاہیے، باقی تمام چشمے بند کر دیں، اور اپنے چشمے پر ایک حوض بنائیں تاکہ جنگ کے دوران ہمارے پاس پانی رہے اور قریش کے پاس نہ ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے بہت اچھا مشورہ دیا ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کے مشورے کے مطابق رات کو لشکر کو حکم دیا، اور قریش کے قریب ترین چشمے پر جا کر پڑاؤ ڈالا۔

اسلامی لشکر پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت:

قریش کا لشکر مسلمانوں سے پہلے بدر کے میدان میں پہنچ چکا تھا، انہوں نے بہترین جگہ منتخب کرلی تھی، جبکہ مسلمانوں نے جس مقام پر پڑاؤ ڈالا، وہ ریتیلا علاقہ تھا، جس میں چلنا پھرنا قدرے مشکل تھا۔ ایسے وقت میں اللہ رب العزت نے بارانِ رحمت نازل فرمائی، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی زمین سخت ہوگئی، راستے ہموار ہو گئے، اور ان کے لیے چلنا آسان ہو گیا، جبکہ قریش کی جگہ کی زمین کیچڑ اور پھسلن کا شکار ہوگئی، جس سے ان کے لیے حرکت کرنا دشوار ہو گیا۔

سب سے عجیب بات یہ تھی کہ اُسی رات پورے اسلامی لشکر پر ایک خاص قسم کی نیند طاری ہوئی، جو دراصل سکون، اطمینان اور اللہ کی طرف سے امان کا مظہر تھا، اور بارش کے باوجود لشکر کے کسی فرد کو کوئی مشکل پیش نہ آئی۔

اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کو قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا:

﴿إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ﴾ [سورۃ الأنفال: 11]

ترجمہ:

یاد کرو وہ وقت جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ایک قسم کی نیند طاری کی گئی، تاکہ تمہیں اطمینان اور امن حاصل ہو، اور آسمان سے تم پر پانی برسایا، تاکہ تمہیں اس کے ذریعے پاک کرے، تم سے شیطان کی گندگی(وسوسوں) کو دور کرے، تمہارے دلوں کو مضبوط کرے، اور تمہارے قدموں کو اس کے ذریعے جما دے۔

Author

Exit mobile version