غزوات النبی ﷺ اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق! نویں قسط

ابو ریان حمیدی

قیادت کے لیے مرکز قائم کرنا:

جب لشکر میدان میں اترا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم آپ کے لیے ایک محفوظ جگہ بناتے ہیں تاکہ آپ وہاں سے جنگ کی صورتحال کا جائزہ لے سکیں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے بہتر حکمت عملی بنا سکیں۔ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو یہی ہماری مراد ہے، اور اگر ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو آپ کے لیے سواری تیار رہے گی تاکہ آپ بحفاظت پیچھے موجود مسلمانوں تک پہنچ سکیں۔ کیونکہ ہمارے پیچھے ایسے لوگ موجود ہیں جو ہم سے زیادہ آپ سے محبت کرتے ہیں، اگر انہیں معلوم ہوتا کہ جنگ ہونے والی ہے تو وہ آپ کو اکیلا نہ چھوڑتے، بلکہ ضرور آپ کے ساتھ شامل ہوتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی اس رائے کو سراہا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ چنانچہ جنگ کے میدان کے شمال مشرق میں ایک اونچی جگہ پر قیادت کے لیے ایک محفوظ مقام بنایا گیا اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں انصار کے ایک گروہ کو اس مرکز کی حفاظت پر مامور کیا گیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اس رات مسلمانوں کا پورا لشکر سو گیا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات اللہ تعالیٰ کے حضور دعا میں مصروف رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھائے گریہ و زاری کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعائیں کر رہے تھے۔ (روایت طبرانی)

اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات میدانِ بدر میں تشریف لائے اور ہمیں قریش کے سرداروں کے قتل ہونے کی جگہیں دکھائیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم! جن مقامات کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی، ان میں سے کسی پر بھی دشمن کا کوئی فرد زندہ نہیں بچ سکا۔ (روایت مسلم، باب من یقتل ببدر)

صبح ہوئی تو دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے:

رمضان کی سترہویں رات کا صبح طلوع ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی: الصلاة عباد الله (اے اللہ کے بندو، نماز کا وقت ہو گیا ہے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوگئے اور پورے لشکر کی امامت کرتے ہوئے فجر کی نماز ادا کی۔

نماز کے بعد مکہ کا لشکر میدانِ بدر کی طرف بڑھا، تو اسلامی لشکر بھی میدان میں اتر آیا۔ دونوں لشکر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے لشکر کی بڑی تعداد اور ان کی طاقت دیکھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی:

’’اللهم هذه قریش قد أقبلت بخیلائها و فخرها تحادک، و تکذب رسولک، اللهم فنصرک الذي وعدتني، اللهم احنهم الغداة ‘‘۔

ترجمہ: اے اللہ! یہ قریش بڑے غرور اور تکبر کے ساتھ یہاں آئے ہیں، وہ تجھ سے دشمنی رکھتے ہیں اور تیرے رسول کو جھٹلاتے ہیں۔ اے اللہ! تو ہمیں مدد فرما جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ اے اللہ! آج ان کو شکست دے اور ان کی کمر توڑ دے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو ترتیب دیا، صفیں اسی طرح بنائی گئیں جیسے نماز کے دوران بنائی جاتی ہیں۔ سب سے آگے نیزہ برداروں کی صف تھی تاکہ دشمن کے گھڑ سواروں کے حملے کو روکا جا سکے۔ اس کے پیچھے تیر اندازوں اور تلوار برداروں کی صفیں تھیں۔

میدانِ جنگ میں تین جھنڈے تھے۔ ایک جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، دوسرا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے پاس، اور تیسرا ایک انصاری صحابی کے پاس تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: ’’إذا دنا القوم فانضحوهم بالنبل‘‘

(جب دشمن قریب آئے تو ان پر تیر برسانا)۔ پھر فرمایا: ’’ولا تسلوا السیوف حتی یغشیکم‘‘ (جب تک دشمن کی صفیں تمہاری صفوں میں نہ گھس جائیں، اس وقت تک تلواریں نہ نکالنا)۔

اس کے بعد مزید تاکید فرمائی: ’’واستبقوا نبلکم‘‘ (اپنے تیروں کو بچا کر رکھو) یعنی تیر اندازی میں احتیاط کرو تاکہ تمہارے تیر ختم نہ ہو جائیں۔

اگر ان ہدایات اور احکامات پر غور کیا جائے تو یہ کسی عام انسان کے فیصلے معلوم نہیں ہوتے۔ ہر ایک حکم میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ تھیں۔ یہی بہترین قیادت تھی جس کی بدولت کم تعداد میں ہونے کے باوجود اسلامی لشکر نے ایک بڑے اور سازوسامان سے لیس دشمن کو شکست دی۔ یہ حکمت عملی اور مضبوط قیادت ہی تھی جس کے ذریعے اللہ کی مدد کا وعدہ پورا ہوا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دن میدانِ جنگ میں اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مشرق کی طرف تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسلامی لشکر مغرب کی طرف رخ کر لے تاکہ جنگ کے دوران سورج کی روشنی آنکھوں میں نہ پڑے اور کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔ اس طرح کفار کا لشکر سورج کی طرف رخ کر گیا، جو ان کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوا۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر سے خطاب کیا اور انہیں جہاد کی فضیلت سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قوموا إلی جنة عرضها السموات والارض‘‘

( اس جنت کی طرف بڑھو، جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے)

یہ سن کر حضرت عمیر بن الحمام رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’بخ بخ‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کہا؟

انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں امید کرتا ہوں کہ میں اس جنت میں داخل ہونے والوں میں شامل ہو جاؤں گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کے اہل ہو۔

یہ سنتے ہی حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنی جیب سے تین کھجوریں نکالیں اور کھانے لگے۔ پھر خود سے کہا: اگر میں یہ کھجوریں کھاکر جنگ میں جاؤں تو یہ بھی لمبی زندگی ہو جائے گی!

یہ کہہ کر انہوں نے کھجوریں پھینک دیں، اور پھر کفار کے خلاف بہادری سے لڑے، یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفیں درست کر رہے تھے، تو آپ کے ہاتھ میں ایک تیر تھا، جس سے آپ صفوں کو سیدھا کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک صحابی سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ صف سے تھوڑا آگے نکل آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی کے ساتھ ان کے پیٹ پر تیر سے ہلکا سا چھوا تاکہ وہ صف میں برابر کھڑے ہوں۔

سواد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے تکلیف دی، میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اپنی مبارک چادر ہٹائی، اپنا پیٹ ظاہر کیا اور فرمایا: لو، بدلہ لے لو!

سواد رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے لگایا اور آپ کے مبارک پیٹ کو بوسہ دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیرت سے پوچھا: سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟

سواد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: یا رسول اللہ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم جنگ کے میدان میں ہیں، معلوم نہیں زندگی رہے گی یا نہیں، میں نے چاہا کہ میرا جسم آپ کے مبارک جسم سے مَس ہو جائے!

یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا خیر فرمائی۔

Author

Exit mobile version