میدانِ جنگ سے ابلیس کا فرار:
ابلیس کفار کے لشکر کے ساتھ شریک تھا، وہ سراقہ بن مالک کی شکل میں، اور اس کا لشکر بنو مدلج کے لوگوں کی صورت میں آیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی نصرت پہلے ایک ہزار، پھر دو ہزار، اور پھر مزید دو ہزار فرشتوں کے ذریعے فرمائی، جس کی مجموعی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ گئی۔
جب ابلیس کی نظر فرشتوں کے لشکر پر پڑی تو اس نے فوراً میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کی۔ حارث بن ہشام نے اسے پکڑا، اور یہ سمجھا کہ وہ سراقہ ہے، لیکن ابلیس نے اس کے سینے پر گھونسہ مارا اور خود کو چھڑا کر بھاگ نکلا۔ مشرکوں نے اسے پکارا:
"سراقہ! کہاں جا رہے ہو؟ تم نے تو کہا تھا کہ آخر تک ہمارے ساتھ رہو گے!”
اس نے جواب دیا:
"میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ سخت عذاب دینے والا ہے!”
اور یوں وہ بھاگ نکلا۔
ابو جہل کی مزاحمت اور مکمل شکست:
جب ابو جہل نے اپنے لشکر کی ابتر حالت دیکھی تو اس نے کوشش کی کہ بکھرے ہوئے لشکر کو دوبارہ منظم کرے، اور منتشر صفوں کو سنبھالے۔ وہ بڑے تکبر سے پکارا:
"سراقہ کا بھاگنا اور عتبہ، شیبہ اور ولید کا قتل ہماری شکست کا باعث نہ بنے!”
اس نے لشکر کو جوش دلانے والی باتیں کیں، لیکن کہاں ربِ متعال کی نصرت، اور کہاں ایک مغرور کافر کی بے فائدہ کوششیں۔
جب ابلیس کا لشکر پسپا ہوا اور فرشتے میدان میں اترے:
جنگ بدر میں کچھ کفار قتل ہو رہے تھے، کچھ مؤمنین اور ان کی آسمانی مددگار یعنی فرشتے دشمنوں کو قید کر رہے تھے، اور کچھ کفار میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ اس معرکے میں مسلمانوں کے ۱۴ افراد شہید ہوئے، جن میں ۶ مہاجر اور ۸ انصار صحابہ کرام شامل تھے۔
جب بدر کا میدان مسلمانوں کی فتح کا منظر پیش کر رہا تھا اور کفار کا لشکر مکمل طور پر شکست کھا چکا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فتح کی خوشخبری مدینہ منورہ پہنچانے کے لیے عبد اللہ بن رواحہ اور زید بن حارثہ کو روانہ فرمایا۔
سائب بن ابی حبیش اسدی خلافتِ عمرؓ کے دور میں واقعہ سنایا کرتے تھے کہ:
"مجھے جنگ بدر میں ایک شخص نے خوشی سے نہال کردیا، وہ کہتے ہیں کہ جس دن قریش کو بدر میں شکست ہوئی، میں بھی اس پسپا لشکر میں شامل تھا۔ اُس وقت ایک لمبا، گورا شخص گھوڑے پر سوار آیا، اور مجھے رسی سے باندھ دیا۔ جب عبد الرحمن بن عوفؓ آئے، تو مجھے بندھا ہوا پایا۔ انہوں نے بلند آواز میں پوچھا: ٰاسے کس نے باندھا ہے؟ٰ مگر کوئی کچھ نہ بولا۔ پھر وہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے۔ آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: ٰتمہیں کس نے باندھا؟ٰ میں نے کہا: ٰمیں اسے پہچانتا نہیںٰ، اور پوری حقیقت بتانا مجھے مناسب نہ لگا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ٰتمہیں فرشتوں نے گرفتار کیا ہٰے۔ پھر آپ ﷺ نے عبد الرحمن بن عوفؓ سے فرمایا: ٰاسے قید کر لوٰ۔”
بعد میں سائب بن ابی حبیش مسلمان ہوگئے تھے۔
یہ غیبی مددگار فرشتے ہی تھے جنہوں نے مکہ کے متکبر لشکر کو شکست سے دوچار کیا، ان کے ستر لوگ قتل ہوئے، ستر قید کیے گئے، اور باقی سب میدان چھوڑ کر ایسے بھاگے جیسے قیامت کا منظر ہو، ہر طرف جان بچانے کی چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔
ابو جهل کا قتل:
عبد الرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں:
"میں بدر کے دن جنگی صف میں کھڑا تھا کہ دو نوعمر نوجوان میرے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: ٰچچا! ابو جهل کون ہے؟ٰ میں نے پوچھا: ٰتم اسے کیوں تلاش کر رہے ہو؟ٰ ان میں سے ایک نے کہا: ٰہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرتا ہے۔ خدا کی قسم! اگر میں نے اسے پا لیا تو یا تو اُسے قتل کر دوں گا یا خود شہید ہو جاؤں گا۔ٰ”
عبدالرحمن بن عوف ؓ فرماتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد مجھے ابو جهل نظر آیا، میں نے انہیں دکھایا، تو دونوں فوراً اس کی طرف لپکے اور اس امت کے فرعون پر تلواروں کے وار شروع کر دیے اور بالآخر اسے قتل کر دیا۔
ان نوجوانوں میں ایک معاذ بن عمرو تھے۔ وہ کہتے ہیں:
"مشرکین کہتے تھے کہ ابو الحکم (ابو جهل) تک پہنچنا ناممکن ہے، کیونکہ وہ سخت حفاظتی حلقے میں تھا۔ میں موقع کی تلاش میں تھا، جیسے ہی موقع ملا، میں یکایک اس پر جھپٹا اور اس کی پنڈلی پر وار کیا اور اسے زخمی کر دیا۔ اسی وقت ابو جهل کے بیٹے عکرمہ نے مجھ پر وار کیا اور میرا ہاتھ کاٹ دیا۔ میرا ہاتھ صرف چمڑے سے لٹک رہا تھا، مگر میں جنگ میں مشغول تھا اس لیے پرواہ نہ کی۔ سارا دن لڑتا رہا، جب درد بڑھ گیا تو پاؤں کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسے جسم سے جدا کر دیا اور پھینک دیا۔”
پھر معوذ بن عفراء آئے اور انہوں نے بھی ابو جهل پر سخت وار کیا، وہ زمین پر گر گیا مگر اس میں ابھی جان باقی تھی۔ معوذ لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
جب جنگ ختم ہوئی تو صحابۂ کرامؓ نے ابو جہل کی تلاش شروع کی۔ آخرکار عبد اللہ بن مسعودؓ کو اس کا زخمی جسم مل گیا، اس میں ابھی سانس باقی تھی۔ عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کے سینے پر پاؤں رکھا اور اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ یوں اسلام کا وہ دشمن ختم ہوا جو مکہ میں رسول اللہ ﷺ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتا رہتا تھا۔ وہ ایسا دشمن تھا جس نے اسلام کے ہر پیروکار کو یا تو تلوار سے زخمی کیا یا زبان سے اذیت دی۔ اس کی زبان سے نفرت اور زہر ٹپکتا تھا۔
جب اس کا سر رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، تو آپ ﷺ نے تین بار فرمایا: :
’’الله الذي لا إله إلا هو الله اکبر، الحمد لله الذي صدق وعده، ونصر عبده، و هزم الأحزاب وحده، انطلق أرنیه‘‘
ترجمہ: وہی اللہ ہی معبود برحق ہے، جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے، جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا تمام لشکروں کو شکست دی۔”
پھر آپ ﷺ نے فرمایا چلو، مجھے اس کا جسم دکھاؤ۔
جب آپ ﷺ اس کے لاشے کے پاس پہنچے تو فرمایا:
’’هذا فرعون هذه الأمة‘‘
"یہ اس امت کا فرعون تھا۔