غزہ کی پٹی: ایک جامع تجزیہ!

حجاز تمیم

غزہ، جو بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک چھوٹا سا علاقہ ہے، دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد اور بحران زدہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ کئی دہائیوں سے جاری قبضے، جنگ، سیاسی عدم استحکام اور انسانی بحرانوں نے اس خطے کو عالمی خبروں کی سرخیوں میں شامل کر رکھا ہے۔ اس تجزیے میں ہم نے کوشش کی ہے کہ غزہ کے تاریخی، سیاسی، معاشی، صحت اور انسانی صورتحال پر گہری نظر ڈالی جائے تاکہ اس خطے کی موجودہ حالت کا ایک واضح نقشہ سامنے آئے۔

۱۔ تاریخی پس منظر:

۱.۱۔ عثمانی سلطنت اور برطانوی سرپرستی:

غزہ سولہویں صدی سے لے کر ۱۹۱۷ء تک عثمانی سلطنت کے زیرِ حکومت رہا۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے بعد یہ علاقہ برطانوی سرپرستی میں چلا گیا، جس سے فلسطین کی تقسیم کی بنیاد رکھی گئی۔

۲.۱۔ ۱۹۴۸ء کی جنگ اور قبضہ:

اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی۔ مصر نے غزہ پر اپنا عسکری کنٹرول قائم کیا، لیکن ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے خلاف فلسطینیوں نے متعدد بار مزاحمت کی، جن میں ۱۹۸۷ء کی انتفاضہ ایک نمایاں مثال ہے۔

۳.۱۔ اوسلو معاہدہ اور حماس کا اقتدار:

۱۹۹۳ء کے اوسلو معاہدے کے تحت غزہ جزوی طور پر فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں آیا، تاہم ۲۰۰۷ء میں انتخابات کے ذریعے حماس نے اقتدار حاصل کر کے غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ اسی بنیاد پر مصر اور اسرائیل نے اس علاقے پر سخت پابندیاں عائد کیں، جس کے نتیجے میں غزہ مکمل طور پر محصور ہو گیا۔

۲۔ جغرافیہ اور آبادی:

غزہ تقریباً ۳۶۵ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے، اور۲۰۲۵ء کے اندازے کے مطابق اس کی آبادی ۲.۳۵ ملین (یعنی ۲۳ لاکھ ۵۰ ہزار) سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہاں آبادی کی گنجانی تقریباً ۴۰،۰۰۰ افراد فی مربع کلومیٹر ہے، جو کہ دنیا کے سب سے گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔

۳۔ انسانی بحران:

۳.۱ صحت کی صورتحال:

جنگ اور محاصرے کی وجہ سے غزہ میں صحت و علاج کا نظام تقریباً مفلوج ہو چکا ہے۔

صحت کے مراکز:

۳۵ ہسپتالوں میں سے صرف ۲۲ جزوی طور پر فعال ہیں، جبکہ ۱۵۳ صحت کے مراکز میں سے ۷۶ ہی محدود پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔

امراض اور وبائیں:

دست کی بیماری کے ۲۱۳,۰۸۵ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے ۱۰۴,۲۱۳ کیسز پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس A کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کی اطلاعات ہیں، اور گندے پانی میں پولیو وائرس بھی پایا گیا ہے۔

ادویات کی قلت:

سرحدوں کی بندش کی وجہ سے کینسر، دائمی امراض اور سرجری کے لیے ضروری ادویات اور طبی سامان دستیاب نہیں ہے، جس سے مریضوں کی حالت مزید خراب ہو رہی ہے۔

۳.۲ غذائی بحران:

قحط کے قریب حالات:

تقریباً ۱.۸۴ ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں سے ۱۳۳,۰۰۰ افراد قحط جیسی صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں۔

خوراک کی تقسیم کے مسائل:

’’غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ کے ذریعے خوراک کی تقسیم کا نظام ناکام ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں کئی ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔

خوراک کے گوداموں پر ہجوم:

دیر البلح میں خوراک کی شدید قلت کے باعث ہزاروں افراد نے اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے گودام پر دھاوا بول دیا، جس کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق ہو گئے۔

۳.۳۔ بے گھر افراد:

تقریباً ۱.۹ ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جو کہ غزہ کی ۸۵٪ آبادی بنتی ہے۔ زیادہ تر لوگ عارضی کیمپوں میں انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

۴۔ معاشی صورتحال:

۲۰۲۳ء میں غزہ کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں تقریباً ۸۱.۳٪ کمی واقع ہوئی۔

بیروزگاری کی شرح ۷۹.۳٪ تک پہنچ چکی ہے، غربت کی سطح ۷۴.۳٪ ہو گئی ہے، تقریباً ۳۷,۳۷۹ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔

بنیادی سہولیات جیسے پانی، بجلی اور صحت کی سہولتوں کا ڈھانچہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔

۵۔ جاری جنگ(۲۰۲۳–۲۰۲۵):

۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو، حماس کے مجاہدین نے اسرائیل کی مسلسل جارحیت کے جواب میں اس پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں تقریباً ۱۲۰۰ اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بھرپور بمباری شروع کی۔ مئی ۲۰۲۵ء تک ۵۴,۰۰۰ سے زائد فلسطینی شہید جبکہ ۱۱۲,۰۰۰ سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

۶۔ بین الاقوامی ردِعمل:

عالمی برادری اس تنازع پر منقسم نظر آتی ہے؛ کچھ ممالک اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں، جبکہ اکثریت فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع کر رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے فوری امداد کی اپیلیں کی ہیں۔ مارچ ۲۰۲۵ء میں عرب ممالک نے ایک مجوزہ فلسطینی تکنیکی حکومت اور اقوامِ متحدہ کے امن مشن کی تعیناتی کا منصوبہ پیش کیا، جسے اسرائیل نے مسترد کر دیا۔

۷۔ تعمیر نو کی ضرورت:

معاشی بحالی: اقوامِ متحدہ کے مطابق، غزہ کی معیشت کو پرانی حالت میں لانے کے لیے درجنوں ارب ڈالر اور کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔

انسانی ترقی: انسانی ترقی کا اشاریہ (HDI) ۰.۴۰۸ پر آ گیا ہے، جو ۱۹۵۵ء کی سطح کے برابر ہے، یوں ۶۹ سالہ ترقی ضائع ہو چکی ہے۔

۸۔ غزہ کا مستقبل:

غزہ کا مستقبل تاحال غیر یقینی ہے۔ اگر عالمی برادری، علاقائی قوتیں، اور متعلقہ فریقین ایک حقیقی سیاسی حل کے لیے سنجیدہ نہ ہوں، تو یہ انسانی بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔ غزہ کی بحالی کے لیے اربوں ڈالر، طویل المدتی وعدے، اور باہمی اعتماد کی فضا ناگزیر ہے۔

غزہ کئی دہائیوں سے جنگ، قبضے اور انسانی المیے کا شکار ہے۔ یہ محض ایک جغرافیائی محصور علاقہ نہیں، بلکہ انسانی تکلیف، سیاسی ناکامی اور عالمی بے حسی کی زندہ تصویر ہے۔ اگر انصاف، انسانیت اور پائیدار حل کی جانب عملی اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ بحران مزید پھیلتا اور بڑھتا جائے گا۔

Author

Exit mobile version