قائدینِ امارت اسلامی کی جانب سے ابوبکر بغدادی کو بھیجا گیا پیغام!

✍️ مبارز ھروی

۲۰۱۵ء میں خوارج نے ’’دولۃ اسلامیۃ ولایت خراسان‘‘ یا ’’داعش خراسان‘‘ کے نام سے افغانستان میں اپنی کاروائیاں شروع کردیں۔

یہ وہ گروہ ہے جس کے ظہور کے بعد پورے عالم اسلام خصوصا میادینِ جنگ میں خونی فتنوں نے جنم لیا، یہی وہ فتنہ تھا جب شام کے مجاہدین فتح و کامیابی کے زینے طے کر رہے تھے، ان کے ظہور سے وہ تمام امیدیں اور کامیابیاں ناکامیوں میں بدل گئیں۔

جی ہاں! داعش خراسان نے افغانستان میں بھی علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی کاروائیوں کااعلان کردیا۔

امارت اسلامی نے سوویت یونین کی شکست کے بعد مجاہدین کے گروپوں سے اچھی طرح سبق سیکھ رکھا تھا، اس لیے وہ سیاہ تاریخ پھر کبھی دھرائی نہ جائے اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے لائحہ عمل میں لکھ دیا ہے کہ افغانستان میں کسی گروپ یا جماعت کو اپنے جھنڈے استعمال کرنے اور اس کے سائے میں جہاد کرنے کی اجازت نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کیوں کوئی نئی جماعت بنائی جائے؟ جبکہ معاصر جہاد کی تمام بڑی شخصیات جیسے امام المجاہدین شیخ عبداللہ عزام، قائد المجاہدین شیخ اسامہ بن لادن، صلیبیوں پر قہر خداوندی بننے والے ابومصعب زرقاوی رحمہم اللہ یہ سب کے سب افغانستان کے جہادی مدرسے میں شاگردی کو اپنے لیے فخر واعزاز سمجھتے رہے۔

کیا یہ خوارج جہاد اور عالمی کفر کے مقابلے میں کبھی صف اول میں شمار ہوئے ہیں؟

اس حوالے سے امارت اسلامی کے امراء نے خوارج کے نام نہاد امیر کے نام، جو اس وقت اکثر جہادی جماعتوں کے نزدیک اچھی شہرت کے حامل تھے اور اس وقت تک ان کے باطل نظریات ظاہر نہیں ہوئے تھے، ایک کھلا خط لکھا۔

اس خط میں واضح طور پر لکھا گیا کہ امارت اسلامی کے افکار و نظریات کو غیروں سے لینے کے بجائے خود ان کے رسمی امراء، ترجمانوں اور میڈیا سے معلوم کیا جائے۔

مگر خوارج کی جانب سے ان تجاویز کو درخور اعتناء نہ سمجھا گیا، اپنے غرور، تکبر اور کفارکے انٹیلی جنس اداروں کے لیے کام کرنے کی پاداش میں نہ صرف اپنے کارندوں کا خون ضائع کیا بلکہ اس طریقے سے انہوں نے اپنی حقیقت بھی عالم اسلام پر ظاہر کردی۔

Author

Exit mobile version