لال مسجد: ظلم و جبر کی سیاہ تاریخ اور نہ ختم ہونے والی مزاحمت

نورالهداء خلیل

میرا قلم ان الفاظ کو لکھنے سے عاجز ہے، مگر میں انہیں لکھ رہا ہوں کیونکہ تاریخ کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔

ایمان کے قلعوں کو گرانا – اسلام آباد کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ

۲۰۰۷ء میں، پاکستانی فوج نے اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد کی معصوم طالبات، حافظات، اور اساتذہ پر وحشیانہ حملہ کیا۔ یہ حملہ صرف پاکستان کے کسی جنرل یا فوجی فیصلے کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ امریکہ، اسرائیل، اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی ایک مشترکہ سازش تھی جس کا مقصد دینی شعور کو مٹانا تھا۔

لال مسجد صرف ایک عبادت گاہ نہیں تھی، بلکہ اسلامی بیداری کا ایک نشان تھی۔ وہاں اسلامی اور دینی جذبے سے سرشار ایسے بہادر مرد اور باعفت خواتین تھیں جنہوں نے ظلم کے خلاف اور حکومتِ وقت کی غیر شرعی پالیسیوں کے خلاف حق کی آواز بلند کی، لیکن یہ آواز ان لوگوں کے لیے قابلِ برداشت نہیں تھی جو اسلام کے اصل روح کے دشمن تھے۔

ظلم اور وحشت کی سیاہ تاریخ اور معصوم خون:

جولائی ۲۰۰۷ء میں، پاکستانی فوج نے امریکہ کے اشارے پر، جنرل پرویز مشرف کے حکم پر لال مسجد کے طالب علموں، طالبات، اساتذہ اور قرآن کریم کے حافظوں پر وحشیانہ حملہ کیا۔ ان آپریشنز کے لیے دس ہزار فوجی، بھاری ہتھیار، ٹینک، ہیلی کاپٹر اور حتی کہ زہریلی گیس اور فارس فورس کی طرح کیمیائی بموں کا استعمال کیا گیا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ایک ہزار سے زائد خواتین طالبات، طالب علم، علماء اور حفاظ شہید ہوئے، مگر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد تین ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ انہیں نہ صرف شہید کیا گیا بلکہ ان کی لاشوں کو فوج نے جلا دیا تاکہ ظلم کے نشانات چھپ جائیں یا مکمل طور پر مٹا دی جائیں۔

سب سے دردناک کہانی یہ ہے کہ تقریباً دو سو باعفت مؤمن طالبات جو شرعی نظام کے نفاذ کی حامی تھیں، لاپتہ کر دی گئیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق، کئی طالبات کو امریکی فورسز کے ہاتھوں میں ہزاروں ڈالر کے بدلے دے دیا گیا اور انہیں بگرام، گوانتانامو اور دیگر خفیہ امریکی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔

امریکا، اسرائیل، اور بھارت – خفیہ معاملات:

امریکا کا خفیہ ہاتھ:

آپریشن کے دوران، امریکی سفیر این پیٹرسن نے پاکستان کے اعلیٰ حکام سے رابطے کیے تھے، اور امریکی مشیر پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ موجود تھے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی CIA نے اس آپریشن کی مالی معاونت 500 ملین ڈالر کے بدلے کی، پاکستان کے اعلیٰ فوجی افسران، جنہوں نے ان آپریشنز کی قیادت کی، آپریشنز کے بعد امریکہ میں مستقل ویزے اور جائیدادیں حاصل کیں۔

اسرائیل کی مدد:

آپریشن کے دوران، پاکستان نے اسرائیل کے بنائے ہوئے جدید اسلحہ جیسے لیزر بم اور زہریلی گیسوں کا استعمال کیا تاکہ شہداء کے جسموں کو بغیر کسی نشان کے ختم کیا جا سکے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی (ISI) کے کچھ افسران، جنہوں نے ان آپریشنز کو مشکوک، غیر معقول اور جنگی اصولوں کے خلاف قرار دیا، یا تو ماردیے گئے یا انہیں اپنی ملازمتیں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کا کردار – ’’را‘‘ پردے کے پیچھے:

بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی (RAW) نے پرویز مشرف کی حکومت کو جعلی انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں، جس کے ذریعے انہیں قائل کیا گیا کہ لال مسجد ’’القاعدہ‘‘ کا ایک مرکز ہے۔ بھارتی حکومت کے انٹیلی جنس افسران، جن کا پاکستان کے فوجی حلقوں میں اثر و رسوخ تھا، آپریشن کے لیے تکنیکی اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتے تھے۔

آپریشن کے بعد، بھارتی انٹیلی جنس نے پاکستان کے کچھ میڈیا اداروں کو 15 ملین ڈالر دیے تاکہ ان آپریشنز کو ’’دہشت گردی کے خلاف کامیابی‘‘ کے طور پر پیش کیا جائے۔

فوج کے اندر مزاحمت اور کچلے گئے افسران:

آپریشن کے دوران، پاکستان کے فوجی افسران میں سے کچھ نے لال مسجد پر حملے کی مخالفت کی۔ چند اہم فوجی افسران، جنہوں نے اس حملے کو ’’غیر اسلامی‘‘ قرار دیا تھا، فوج سے نکالے گئے، اور کچھ دیگر ماردیے گئے۔

کرنل عباس:

انہوں نے لال مسجد کے خلاف آپریشن کی مخالفت کی تھی اور انہیں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔

میجر عامر:

وہ فوج کے انٹیلی جنس افسر تھے جنہوں نے آپریشن کی حقیقت کو بے نقاب کیا، لیکن اچانک انہیں اپنی ملازمت چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

بریگیڈیر علی خان:

انہوں نے آپریشن کی مخالفت کی تھی اور جھوٹے الزامات کے تحت ’’دہشت گردی‘‘ کے الزام میں قید کر لیا گیا۔

پاکستان کی دوہری پالیسی – ناکام پالیسیوں کا الزام دوسروں پر ڈالنا:

اگر لال مسجد ’’دہشت گردی کا مرکز‘‘ تھا، تو وہاں صرف قرآن، حدیث اور اسلامی علوم کی تعلیم کیوں دی جا رہی تھی؟ اگر ان آپریشنز کا مقصد ’’دہشت گردی‘‘ کا خاتمہ تھا، تو بے گناہ طالبات کو امریکیوں کے حوالے کیوں کیا گیا؟

کیوں آپریشن کے بعد فوج کے اعلیٰ افسران کو امریکہ کی طرف سے مستقل ویزے اور جائیدادیں دی گئیں؟

پاکستان بجائے کہ اپنی ناکام اور غیر شرعی پالیسیوں کو درست کرے، اپنی ناکامیوں اور خراب سیکیورٹی صورتحال کا الزام دوسروں پر ڈالتا ہے۔ جیسا کہ چند دن پہلے اسلام آباد میں لال مسجد سے متعلق جامعہ حفصہ کی سربراہ اور ناظمہ ام حسان کو چند شرعی معقول مطالبات کے جواب میں گرفتار کیا گیا، جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا۔

پاکستان اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے، پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے ناکام سیکیورٹی پالیسیوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے داخلی مسائل کا الزام افغانستان پر ڈالتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جان بوجھ کر مذہبی اور مقدس مقامات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے، مسلمانوں کو تنگ کرتا ہے تاکہ عوام کا مذہبی غصہ بھڑکے اور وہ ہتھیار اٹھا لیں۔ یہ سب کچھ پاکستان کے فاسد جرنیلوں اور حکومتی رہنماؤں کی جانب سے اقتدار کے تحفظ کے لیے کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان بجائے اس کے کہ اپنی پالیسیوں کو درست کرے، افغانستان کا نام لیتا ہے تاکہ اپنے عوام کو دھوکہ دے سکے۔

لال مسجد کا قصہ – تاریخ کے حافظے سے محو نہیں ہو سکتا:

لال مسجد میں بہایا جانے والا خون ابھی خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ یہ ظلم دوبارہ دہرایا گیا۔ ام حسان گرفتار ہو گئیں، مظلوم حفاظ و حافظات نے پھر ظلم کے سامنے ڈٹ گئے، لیکن یاد رکھیں!

حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ تاریخ کے صفحات پر درج ہو چکا ہے اور کبھی بھی چھپایا نہیں جا سکتا۔

Author

Exit mobile version