تحریر : احسان اللہ احسان
پاکستان وہ ریاست ہے جس نے بطور ریاست اپنے مفادات کے حصول کے لیے تمام تر انسانی ، اخلاقی ، سفارتی اور اسلامی اصولوں کو پامال کیا ہے ۔ مگر اس کے باجود پاکستان نہ تو مضبوط و مستحکم ریاست بن سکا اور نہ ہی دنیا کی ممالک کے درمیان ایسی شناخت بنا سکا جس پر فخر کیا جا سکے ۔
پاکستانی حکمرانوں بالخصوص جرنیلوں کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان نے جہاں اپنا اسلامی تشخص کھو دیا وہی نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے کے لیے امریکہ کا ساتھ دیکر فخریہ کفر کا فرنٹ لائن اتحادی بنا تو ایک ہمسایہ ہونے کے تمام روایات بھی توڑ ڈالے اور اپنے مسلمان افغان بھائیوں کی خون کی ندیاں بہانے میں سہولت کار بنا ۔
اسی پر بس نہ کیا بلکہ اپنی بیٹی عافیہ سمیت ہزاروں افغانوں کو پکڑ امریکہ کو پانچ پانچ ہزار ڈالرز کی عوض بیچ کر بی غیرتی کی تاریخ میں اپنا نام پہلے نمبر درج کروایا ۔ ایک منتخب اور تسلیم کردہ سفیر کو تمام تر سفارتی اصولوں اور اداب کے خلاف پکڑ کر دشمن کے حوالے کیا۔
پاکستان نے اپنی تمام تر بد اعمالیوں کے باوجود بڑی بے شرمی اور دھٹائی کیساتھ افغانستان میں اپنے مفادات کی خاطر افغانستان کیساتھ اچھے تعلقات کا ڈھونگ رچایا اور دعوی کرتے رہے کہ افغانستان کیساتھ ہمارے بہت سارے مشترکات ہے ، ہم مسلمان ، ایک ہی طرح کے روایت ، ثقافت اور زبان کے حامل ہمسایہ ہے مگر درحقیقت پاکستان نے افغانستان کے معاملے میں نہ تو اسلامیت کا لحاظ رکھا اور نا ہی روایات ، ثقافت اور ہمسائیگی کا خیال کیا۔
۲۰۲۱ کو افغانستان میں فتح اور امارت اسلامی افغانستان کے قیام کیساتھ ہی پاکستان نے اپنے خواہشات کی فہرست اپڈیٹ کی اور دیگر حکومتوں کی طرح امارت اسلامی کی قیادت کے سامنے رکھا مگر افغان قوم کے ان حقیقی نمائندوں نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہاں صرف افغانستان کے مفادات کو ترجیح دی جائیگی ۔ جس نے پاکستانی حکمرانوں اور جرنیلوں کو مایوس کر دیا ہے ۔
مایوس پاکستانی جرنیلوں نے افغانستان سے بدلہ لینے اور بد امنی پھیلانے کے لیے اپنے مہروں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ، پاکستان نے افغانستان دشمنی میں جہاں داعش کو مراکز ، لاجسٹک سپورٹ ، مالی معاونت اور تربیت گاہیں فراہم کئے وہی انہیں افغانستان میں اھداف بھی دئیے جس پر داعش کے خوارج نے حملے کرکے پاکستانی جرنیلوں کی خوشنودی حاصل کی اور پاکستانی جرنیل ایک دفعہ پھر افغانوں کا خون بہا کر خوش ہوتے رہے ۔
داعش نامی خارجی ٹولے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پاکستانی جرنیلوں نے ایک نیا منصوبہ مرتب کیا ہے جس میں داعش کی علاقائی قیادت حاصل کرنے کے لیے اپنے افراد کی رسائی اور ان کی تقرری ہے جس کے لیے وہ سرکاری خرچ پر بنائے گئے تنظیم لشکر طیبہ کے افراد داعش میں بھرتی کروا رہے ہیں ۔
لشکر طیبہ اور داعش ایک فکر اور مسلک کے حامل ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے قابل قبول ہے ، پاکستانی جرنیلوں کو انہیں ایک دوسرے میں ضم کروانا آسان ہے ۔
داعش جن کے مراکز اور تربیتی مراکز بلوچستان تا باجوڑ و دیر پاکستانی فوج کی حفاظت میں ازادی کیساتھ فعال ہے اب لشکر طیبہ پاکستان کے جنگجووں کی نئی اماجگاہیں بنی ہوئی ہے ۔
پاکستانی جرنیلوں کو خوشی اس بات کی بھی ہے کہ کشمیر جہاد کے نام پر بنائی گئی تنظیمیں جو کشمیر ہارنے کے بعد بے روزگار ہوگئی تھی کو استعمال کرنے کے لیے ایک نیا محاذ مل گیا ہے جس کی ذریعے وہ داعش کو ہائی جیک کروا کر لشکر طیبہ کو داعش میں تبدیل کروا سکتے ہے جو ہر طرح سے ان کے تابعدار ہونگے ۔
خیبر پختونخواہ کے لشکر طیبہ کے افراد کو داعش کے خیبر ، اورکزئی ، باجوڑ اور دیر میں قائم مراکز کو آباد کروانے کا ٹاسک دیا گیا ہے جبکہ پنجاب کی لشکر طیبہ کو بلوچستان میں داعش کے مراکز اور تربیتی مراکز آباد رکھنے ٹاسک دیا گیا ہے جہاں داعش کی موجود قیادت شہاب المہاجر سمیت پاکستان کی حفاظت میں مقیم ہے۔
پاکستانی جرنیلوں کی خطے میں بدامنی کے لیے تیار کردہ منصوبے میں داعش کا اہم حصہ ہوگا جس کی قیادت لشکر طیبہ کے پاکستانی اداروں کے ایجنٹوں کے ہاتھوں میں ہوگی ، اب یہ بات بہت واضح ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کی حفاظت کے نام پر ایک مرتبہ خطے کو آگ و خون میں دھکیلنے کی تیاری مکمل کر چکا ہے ۔