محسنِ امت عمر ثالث

#image_title

قلب الاسد افغانی

 

زمین پر اللہ کا قانون سرنگوں تھا، نیک لوگوں کی زندگیاں تکالیف کی زد میں تھیں، افغان ماؤں بہنوں کے لیے زمین دہکتا انگارہ بنا دی گئی تھی، صرف کافروں کی چاپلوسی کر کے کام نکالنے والے ہی کامیاب تھے۔ زندگی اتنی تلخ تھی کہ جانوروں تک کو سکون سے جینے کی اجازت نہ تھی، مدارس، سکول اور دیگر تعلیمی مراکز کے دروازے بند ہو رہے تھے، افغانستان جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھِر رہا تھا۔ بحثیت مجموعی افغان سرزمین اب اس قابل نہیں رہی تھی کہ انسان اس میں زندگی بسر کر سکیں، کیونکہ افغانستان اب اسلحہ بردار غنڈوں کا مرکز بن چکا تھا۔

 

ایسے وقت میں نیک لوگ شدید مایوسی کا شکار تھے اور اپنے رب کے حضور التجاء کر رہے تھے کہ کہ اے اللہ! ہمیں ایک اور عمر عطا کر دے جو ہمیں ان تکالیف سے نجات دلا دے۔ چنانچہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی دعا قبول فرما لی اور ان کے درمیان عمر ثالث پیدا فرما دیا۔

 

عمر رحمہ اللہ بظاہر عاجز، غریب اور سیدھے سادھے لگتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں باطنی طور پر بہت مضبوط بنایا تھا، راسخ عقیدہ، پختہ ایمان، فولادی عزم اور بہادری جیسی صفات ایسی تھیں کہ لوگ انگشت بدنداں رہ جائیں۔

 

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے بیچ سے عمر رحمہ اللہ کا انتخاب کیا، اور انہیں اپنے دین کا محافظ بنا دیا۔ ملا عمر رحمہ اللہ کا اللہ تعالیٰ پر یقین اس قدر قوی تھا کہ نہتے اور صرف ایک کلاشنکوف کے ساتھ تمام بندوق بردار غنڈوں کے خلاف ڈٹ گئے اور ان کے اس عمل نے تمام لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

 

لیکن وہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ساتھ راز و نیاز سے کر رہے تھے اس لیے انہیں روز اوّل سے یقین تھا کہ یہ تمام بندوق بردار غنڈے اور عالمِ کفر کو عظیم شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور افغانوں کو اللہ تعالیٰ ایک اعلیٰ اعزاز سے نوازیں گے یہی وجہ ہے کہ آج خون اور قربانیاں رنگ لائیں ہیں اور تمام افغانی اطمینان و سکون کے ساتھ اسلامی نظام کے سائے تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

 

اللہ تعالیٰ انہیں جنتیوں کا سردار بنا دے۔ آمین یا رب العالمین

Author

Exit mobile version