مذموم خوارج کی گردن پر منصور شہید کی تیز دھار تلوار!

احمد عزیز

امیرالمؤمنین ملا اختر محمد منصور رحمہ اللہ کی امارت اسلامیہ کے امیر کے طور پر تقرری کو ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ داعشی خوارج نے "داعش خراسان” کے نام سے افغانستان کی سرزمین پر اپنے ظہور کا اعلان کیا۔

یہ ایک ایسی فتنہ انگیزی تھی جو ظاہری طور پر امت مسلمہ کے لیے ایک خوشخبری کی شکل میں نظر آتی تھی، لیکن حقیقت میں یہ ایک خونریز سازش تھی، جس کا مقصد افغانستان میں داخلی اختلافات، برادرکشی، اور شرعی جہاد کے چہرے کو بدنام کرنا تھا۔

اس منحوس فتنے کے سر اٹھانے کے ابتدائی دنوں میں ہی، امیرالمؤمنین ملا اختر محمد منصور رحمہ اللہ نے اس گروہ کی اصلیت کو پہچان لیا اور داعش کے خود ساختہ خلیفہ، ابوبکر البغدادی کو ایک واضح اور تنبیہ آمیز خط بھیجا۔

اس خط میں انہوں نے صراحت سے بیان کیا کہ اگر داعش افغانستان کے اندر اپنی سرگرمیوں سے باز نہ آئی تو امارت اسلامیہ اس فتنے کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرے گی اور افغانستان کے مسلم عوام کے عقیدے، سرزمین، اور فکر کی پوری قوت سے حفاظت کرے گی۔

یہ تنبیہ نہ صرف امیرالمؤمنین رحمہ اللہ کے گہرے فہم، تاریخی بصیرت، اور دور اندیشی کو ظاہر کرتی تھی، بلکہ یہ بھی دکھاتی تھی کہ امارت اسلامیہ کبھی بھی اجازت نہیں دے گی کہ داخلی یا خارجی دشمن اسلام کے نام پر مجاہدین کے صفوں کو کمزور کریں یا جہاد کے مقدس راستے کو منحرف کریں۔

لیکن خوارج نے اتحاد، اخلاص، اور بھائی چارے کے پیغام کو قبول کرنے کے بجائے تفرقہ کی آواز بلند کی؛ انہوں نے مجاہدین کو کافر قرار دیا، علماء کو نشانہ بنایا، اور بے گناہ مسلمانوں کے درمیان خونریز بم دھماکے کیے تاکہ اسلام کا ایک مکروہ، بدصورت، اور خوفناک چہرہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔

وہ گمراہ کن نعروں کے ذریعے جاہل اور جذباتی نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور اپنے آقاؤں کے مقاصد کے لیے امارت اسلامیہ کے خلاف ایک محاذ بنانے کی کوشش کر رہے تھے؛ لیکن حقیقت میں وہ اسلام اور شرعی جہاد کی جڑوں کو کاٹ رہے تھے۔

امارت اسلامیہ، ملا اختر محمد منصور رحمہ اللہ کی قیادت میں، وہ واحد تحریک تھی جس نے بیرونی حمایت کے بغیر اس زہریلے فتنے کو اس کے ابتدائی مراحل میں ہی کچل دیا اور اس منحرف گروہ کو افغانستان کی وسیع سرزمین پر غلبہ حاصل کرنے سے روک دیا۔

یہ ایک ایسا فتنہ تھا کہ اگر اسے فروغ ملتا تو نہ صرف ایک حقیقی اسلامی نظام کے قیام کی امیدیں خاک میں مل جاتیں، بلکہ افغانستان کو خانہ جنگی، مذہبی اختلافات، اور تباہی کے شعلوں میں جھونک دیا جاتا۔

لیکن امارت اسلامیہ کی مضبوط قیادت، امیرالمؤمنین ملا اختر محمد منصور رحمہ اللہ کے ہوشمندانہ فیصلے، اور خودمختاری پر مبنی موقف نے اس خطرے کو اس کے جنم سے پہلے ہی ناکام بنا دیا۔ بغیر کسی بیرونی قوت پر انحصار کیے، اپنی طاقت اور جرات سے اس فتنے کو کچل دیا اور افغان مسلم عوام کو دشمنوں کے شر سے بچا لیا

خوارج، جنہوں نے امیرالمؤمنین ملا اختر محمد منصور رحمہ اللہ کے خط سے آنکھیں موند لیں، اس سے کہیں جلد زوال اور تباہی سے دوچار ہوئے جتنا انہوں نے سوچا بھی نہ تھا اور انہوں نے اپنی بہت سی جنگی قوت کھو دی۔

وہ شرمناک شکست، جس نے نہ صرف اس نفرت انگیز گروہ کی افغانستان میں بنیادیں ہلا دیں، بلکہ عراق، شام، اور دیگر ممالک میں بھی اس کے جھوٹے اقتدار کے رعب کو ختم کر دیا اور وہ ایک کے بعد ایک اپنے علاقوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔

Author

Exit mobile version