اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور اپنے مخلص بندوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ان کی صفوں سے خبیث اور ناپاک افراد کو علیحدہ کر کے رہیں گے۔
ہر دور میں جب بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی صفوں کو پاک کرنے کا ارادہ کیا ہے، اس وقت ایک بہت چھوٹا اور معمولی واقعہ پیش آتا ہے، جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی صفوں کو چھان لیا جاتا ہے، حق اور باطل کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو مسلمانوں کی صفوں میں بہت بڑے مسائل پیدا ہوں گے، جنہیں بعد میں حل کرنا بہت مشکل ہوگا۔
ان صفوں کی علیحدگی مختلف زمانوں میں مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے، کبھی مخلص اور منافق میں تفریق، کبھی مسلمان اور کافر کی مابین علیحدگی اور کبھی اھل السنۃ کو دیگر گمراہ گروہوں سے جدا کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔
تاہم ہمارے دور میں اللہ تعالیٰ نے سب سے اہم وقت پر اپنی حکمت اور مصلحت کا مظاہرہ کیا، جب امارت اسلامیہ کے مقابلےمیں دنیا کے تمام کفار اور ان کے پیروکار امریکہ کی قیادت میں شکست کھا گئے اور مظلوم مسلمانوں اورمجاہدین کے کانوں میں فتح کے ترانے گونجنے لگے، ایسے وقت میں امارت اسلامیہ کی صفوں میں ایک زبردست صفائی اورچھان پھٹک کی ضرورت تھی جو ہونی چاہیے تھی۔
کیونکہ جو فتح و کامیابی آئندہ نصیب ہونی تھی اورجس کی ذمہ داری نظام کی صورت میں امارت اسلامیہ پر ہی آتی، جس کے لیے ضروری تھا کہ یہ نظام اھل السنۃ والجماعت کے عقائد اور اصولوں پر مبنی ہو لیکن یہاں ایک مشکل پیدا ہوسکتی تھی کیونکہ گذشتہ بیس سال سے جہادی صفوں میں ہر قسم کے لوگ داخل ہو چکے تھے جن کی چھان پھٹک مجاہدین کے لیے ناممکن تھی۔
یہی ہوا کہ عراق میں بغدادی نامی ایک سرکش نے خلافت کا دعویٰ کیا اور دنیا کے تمام انتہا پسند اور خوارج اس کے گرد جمع ہو گئے اور مسلمانوں کی صفیں جو اس غلاظت سے بھری ہوئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے اسے بہت اچھے طریقے سے صاف کیا۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو اب امارت اسلامیہ سمیت دنیا کے تمام مجاہدین آپس میں شدید اختلافات کا شکار ہوتے، جس سے امارت اسلامیہ کے نظام، سیاست اور حکومت کو شدید نقصان پہنچنے کا قوی امکان تھا۔