موجودہ خوارج یا موساد کے لیے کرائے کے قاتل | پہلی قسط

ابومنصور الماتريدی

داعش جو اسلامی خلافت کے احیاء کا دعویٰ کرتی ہے درحقیقت خلافت کے احیاء کی بجائے خلافت کی بحالی اور احیاء میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے کیونکہ یہود کبھی نہیں چاہتے کہ امت مسلمہ اپنے شاندار ماضی کی طرف لوٹ جائے۔

اسی لیے یہ یہود نابہبود مجاہدین اور علمائے کرام کے بھیس میں کرائے کے قاتلوں کو اسلام کے نام پر امت کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو مختلف ناموں، فرقوں اور گروہوں سے دھوکہ دیتے ہیں تاکہ امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا جائے اور اس کے نتیجے میں وہ بلا تردد اپنے مقاصد تک پہنچ جائیں۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے تل ابیب میں اسلامی یونیورسٹی کے نام سے ایک یونیورسٹی بھی کھولی ہے، جہاں صرف یہودی طلباء کو داخلہ دیا جاتا ہے اور انہیں اسلامی مضامین جیسے ترجمہ، تفسیر، حدیث، اصول حدیث، اصول فقہ پڑھائے جاتے ہیں، اس تعلیم کے اختتام پر انہیں مسلمانوں کے مابین اختلافات پھیلانے کا کام سونپا جاتا ہے۔

اس مقصد کو بہتر طریقے سے حاصل کرنے کے لیے انہوں نے موجودہ دور کے خوارج (داعش) کی بنیاد رکھی، آج کے خوارج کے بانی بھی یہودی ہیں، خوارج کا اصل بانی عبداللہ بن سبا بھی ایک یہودی تھا۔ عبداللہ بن سبا یمن کے شہر صنعاء کا رہنے والا ایک یہودی تھا، جس نے انتہائی چالاکی و مکاری سے لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا اور پھر اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کا حکم دیا اور اسلامی خلافت میں بڑی رکاوٹ بن گیا۔

آج بھی موجودہ خوارج (داعش) اپنے پیشروؤں کے راستے پر چل رہے ہیں، یہ "موساد” کے کرائے کے قاتل کبھی نہیں چاہتے کہ امت مسلمہ ایک اسلامی خلافت اور ایک جھنڈے تلے متحد و مجتمع رہے کیونکہ مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کا مطلب خوارج اور اسرائیل کی شکست و ناکامی ہے جس کے بعد وہ دوبارہ اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

Author

Exit mobile version