عشروں تک وطن عزیز افغانستان آتشیں گرداب میں گھرا رہا، نتیجتاً لاکھوں لوگ شہید، معذور، اپاہج اور مہاجر ہوئے۔
یہ تمام جنگیں افغانیوں نے اپنے ملک کی آزادی (خودمختاری) کے لیے لڑیں لیکن ہمارے پڑوسیوں کی نیت کبھی اچھی نہیں رہی، ہمارے جہاد کے نام پر انہوں نے عالمی برادری سے بھرپور تعاون کیا، افغانیوں پر ناقابل فراموش مظالم ڈھائے اور بدلے میں اپنی تباہ حال معیشتوں کو سہارا دیا۔
ان تمام بد حالیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے افغانستان اور افغانیوں کو ایک مقدس حکومت سے سرفراز کیا، ایسی حکومت جو ملک کو جنگوں اور غموں سے ہمیشہ کے لیے نجات دلانے کے لیے پر عزم ہے اور وطن کے ہر زخم پر مرحم رکھ رہی ہے۔
یہ حکومت یتیموں، بیواؤں، مساکین اور غریبوں کی کفالت کرنا اور انہیں اس مظلومیت سے نجات دلانا چاہتی ہے۔
ہمارے پڑوسیوں کا خیال تھا کہ شاید افغانستان ایک بار پھر آگ کے شعلوں میں گھر جائے گا اور بدلے میں ان کا اپنا کاروبار چمکے گا، لیکن ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اب وہ پھر ارادہ کر رہے ہیں کہ افغانستان میں ایک اور جنگ بھڑکا دیں، داعش نامی قاتلوں، ڈاکوؤں اور فتنہ گروں کے گروہ کو کھڑا کریں اور شر و فساد کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں۔
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ روز اسی خیانت کا ذکر کیا جو پاکستان اور تاجکستان کر رہے ہیں، وہ سی آئی اے کی مدد سے یہ منصوبہ چلا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر عالمی برادری کو اپنے ساتھ کر لیں اور اپنی ناکام سیاست پھر سے چمکا لیں۔
افغانی اب امارت کو تسلیم کر چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ ملک کی واحد سکیورٹی فورس ہے اور کوئی بھی افغانی داعش کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، کیونکہ داعش عقیدے اور نظریے کے اعتبار سے افغانیوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔
امارت اسلامیہ افغانستان نے اپنے پڑوسی ممالک کو پیار و محبت کی زبان میں کہا ہے کہ اب افغانستان اس صورتحال سے نکل چکا ہے کہ اس کے فیصلے کوئی اور کر سکتا ہو، افغانستان میں اب ایک مستقل خودمختار نظام حکومت کر رہا ہے۔
خدانخواستہ اگر کوئی پڑوسی افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو اسے اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔