پاکستانی حکام اور افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں | پہلی قسط

✍️ ابو ھاجر الکردری

بعض خبر رساں اداروں نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے یہ خبر نشر کی ہے کہ پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی نے اپنے تازہ بیان میں افغانستان اور امارت اسلامیہ پرایک بار پھر الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ داعش خراسان نے افغانستان میں اپنی کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں، اندیشہ ہے کہ گیارہ ستمبر جیسے حملے دوبارہ ہوسکتے ہیں۔

پاکستانی حکام کے یہ بیانات ایسے وقت میں شائع ہورہے ہیں جب داعشی خوارج افغانستان میں امارت اسلامیہ کی جانباز افواج کے ہاتھوں شکست فاش کھاکر پاکستانی حکام کی گود میں جائے پناہ حاصل کر چکے ہیں۔

اس بات کی تائید حال ہی میں داعش کی جانب سے نشر کی گئی ویڈیوز اور تصویروں سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بنائی ہیں۔

داعش اور ان کے دم چھلے جو پاکستان،کابل انتظامیہ اور ان کے ساتھ ساتھ چند مشرقی و مغربی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز کا منصوبہ تھا، امارت اسلامی کی فتح کے بعد بہت کم وقت میں افغانستان کے چپے چپے سے ان کے ٹھکانے ختم کردیے گئے اور ان کی جڑیں کاٹ دی گئیں۔

پاکستانی اعلی حکام اور ان کے بیانات کے مختلف پہلو ہیں:

1. امارت اسلامی کے قیام کے بعد ان تمام جاسوسوں اور پاکستان کے آلہ کاروں کا صفایا کردیا گیا جو دن رات پاکستانی حکومت کے مفادات کے تحفظ میں سرگرداں رہتے تھے، اب ان کی کوشش ہے کہ ان افواہوں کے ذریعے اپنے نقصانات کا ازالہ اور اپنی شرمندگی پر پردہ ڈالیں۔

2. حکومت پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں امن وامان کی صورتحال کو دنیا کے سامنے مشکوک بناکر امارت اسلامیہ اور عالمی برادری کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا کردے۔

3. تین سال سے امارت اسلامی نے معیشت، سیاست اور مسلح افواج کے حوالے سے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے جو سازگار ماحول فراہم کیا ہے، یہ سب کچھ ہمسایہ ممالک کے لیے ناقابل یقین ہونے کے ساتھ ساتھ حسد کا ذریعہ بھی ہے، لہذا ان کی کوشش ہے کہ اس طرح کے پراپیگنڈوں سے آئندہ ہونے والی سرمایہ کاری کو روک سکیں۔

جاری ہے……!

Author

Exit mobile version