یوسف جمال
گزشتہ روز روس کے دارالحکومت میں ایک میوزیکل کانسرٹ پر ایک بڑے حملے نے دنیا کو چونکا دیا۔ چھ حملہ آوروں نے سو سے زیادہ لوگ قتل کیے اور سینکڑوں دیگر زخمی کر دیے۔
حملہ آوروں کو جائے وقوعہ سے فرار ہونے کے بعد یوکرائن اور روس کی سرحد کے قریب روسی سکیورٹی فورسز نے گرفتار کر لیا۔
تمام حملہ آور تاجکستانی شہری تھے، جو یوکرائن کی جانب سے ماسکو میں داخل ہوئے تھے۔
ماسکو جیسے حساس مقام پر تاجک داعشیوں کا حملہ خطے میں سکیورٹی پر اس کے اثرات کے حوالے سے غور و فکر کے لائق ہے۔
تاجکستان گزشتہ ڈھائی سالوں میں (بالخصوص افغانستان سے نیٹو انخلاء کے بعد) داعشی نظریہ کی افزائش کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور اس کے شہریوں نے دنیا کے کونے کونے میں درجنوں حملے کیے ہیں۔
افغانستان میں ۱۲ بڑے خود کش حملے جن میں سے ہر ایک میں بھاری جانی نقصان ہوا، تاجک داعشیوں کے ذریعے عمل میں آئے اور ہماری معلومات کے مطابق درجنوں تاجک داعشی سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے یا گرفتار ہوئے۔
داعش کی صفوں میں تاجک شہریوں کے لیے اتنی کشش فطری نظر نہیں آتی، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس کے لیے زمین ہموار کی گئی ہے اور ایک مربوط منصوبے کے ذریعے خطے میں تاجکستانی پیکنگ میں داعشی دہشت گردی برآمد کی جا رہی ہے۔
تاجکستانی انٹیلی جنس جو پیسوں کے بدلے مغربی ممالک کے ایک انٹیلی جنس یونٹ کے طور پر کام کر رہی ہے، اس کھیل کا ایک رخ ہے جبکہ ایک اور ہمسایہ اس مثلث کا دوسرا رخ ہے۔
ہم اس شیطانی مثلث کی کاروائیوں کو اس لیے دہشت گردی کہتے ہیں کہ درحقیقت یہ انسانیت کو خوفزدہ کرنے کے لیے کی جاتی ہیں، داعش سے منسوب گروہ کی یہ کاروائیاں نہ انسانوں کے حق میں ہیں نہ مسلمانوں کے، بلکہ یہ بالکل واضح ہے کہ داعشیوں نے مسلمانوں کی عظمت کے دوبارہ احیا کرنے والے ہر راستے پر رکاوٹیں حائل کیں۔
تاجک دہشت گردی کی اس برآمد سے روس بھی بہت پریشانی کا شکار ہے، کیونکہ اس وقت لاکھوں تاجک روس میں کام کرتے ہیں، اور اب روس ان میں سے ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھے گا۔
اسی طرح تاجکستان سوویت یونین کا حصہ رہا ہے، روس کے ساتھ ثقافتی اور لسانی مماثلتیں رکھتا ہے اور اس کے شہریوں کے لیے ممکن ہے کہ بغیر ویزے اور سکیورٹی چیک کے آزادانہ طور پر روس کا سفر کریں۔
افغانستان میں تاجک داعشیوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے اہداف اسٹریٹیجک اور ایسی پوزیشنز پر ہیں جس کا نقصان مشرقی بلاک کو پہنچتا ہے۔
روسی سفارت خانے پر حملہ، کابل میں چینی شہریوں پر حملہ، ازبکستان پر میزائل حملہ اور اس طرح کے دیگر حملے ظاہر کرتے ہیں کہ تاجکستانی وجود پر پڑی داعشی بندوق غلط ہدف کو نشانہ بنا رہی ہے۔
تاجک انٹیلی جنس نا صرف خطے میں داعشی دہشت گردی برآمد کر رہی ہے بلکہ افغانستان کی سکیورٹی اور سیاسی حیثیت کو نقصان پہنچانے کے لیے افغانستان سے مختلف ناموں سے لوگوں کو نکالنے کے منصوبے کی بھی ذمہ دار ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق سکیورٹی اداروں نے متعدد ایسے افغان باشندوں کو گرفتار کیا ہے، جو تاجک انٹیلی جنس کے ذریعے افغانستان اس لیے چھوڑ رہے ہیں تاکہ وہ خطے میں کسی اور ہدف کے لیے استعمال ہو سکیں۔
افغانستان کے پڑوس میں داعش خراسان کی منتقلی اور تاجکستان کی طرف سے اس کی لاجسٹک سپورٹ خطے کے لیے ایک اور خطے کی گھنٹی ہے، جسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔
اس کینسر سے متاثرہ ممالک کو خطے کی سکیورٹی میں اس کینسر کے نئے جراثیم پھیلانے اور تمام خطے کو سکیورٹی اور معاشی طور پر مفلوج کرنے سے روکنا چاہیے۔
اس شیطانی مثلث کی تشخیص ہونی چاہیے اور اسے خطے کی سکیورٹی اور استحکام کا بیڑہ غرق کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔