کیا حاجی خلیل حقانی تقبله اللہ کی شہادت، حکومت کی کمزوری اور دشمن کی طاقت پر دلالت کرتی ہے!؟

الله نور امیری

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جمہوری حکومت کے سقوط کے ساتھ ہی افغانستان کی امارت اسلامی نے ملک کے تمام شہروں، دیہاتوں، میدانوں، پہاڑوں پر اپنا مبارک اور امن کا سفید پرچم لہرایا اور ملک کے تمام طبقات کے درمیان اتحاد، یکجہتی اور اسلامی اخوت کا ماحول قائم کیا؛ ملک کے گوشے گوشے میں عوام نے اپنی فتح اورعالمی استعماری طاقتوں کی شکست اور زوال کے دن کو بہت خوشی سے منایا۔

امارت نے افغان نوجوانوں کو ملک کی تعمیر، ترقی اور از سرِنو بحالی کی امیدیں اور آرزوئیں بخشیں، جہاد اور محاذوں کے سپاہیوں نے بغیر کسی تاخیر اور آرام کے پورے ملک میں کلمہ طیبہ سے مزین پرچم کے زیرِ سایہ خالص شرعی نظام کے قیام کا اعلان کیا، ایسا نظام جس کا احیاء اسلامی خلافت کے سقوط کے بعد معاصر عالمی استبدادی کفری نظام کے ہوتے ہوئے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔

وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تمام وزارتیں فعال ہوگئیں اور اپنے روزمرہ کے کام اور خدمات معمول کے مطابق شروع کر دیں۔ اسی طرح فوجی شعبے میں تربیت یافتہ اسلامی فوج، انٹیلی جنس اور پولیس کے قیام کے عمل پر تیزی سے کام شروع کیا گیا۔ اب تین سال گزر چکے ہیں اور ہمارا ملک ایک منظم تربیت یافتہ فوج، انٹیلی جنس اور فعال محکمہ پولیس کا حامل ہے، جس کے بناء پر ملک کی سرحدیں، شہر، گاؤں اور بستیوں میں امن و امان قائم ہے۔

آج کسی کو یہ جرأت نہیں کہ وہ حکومتی نظام کے خلاف اعلانیہ بغاوت کرے اور موجودہ امن کی فضا کو نقصان سبوتاژ کرے، یہی نظام کی طاقت اور کامیابی کا بڑا راز ہے۔ تاہم ہدفی واقعات دشمن کی طاقت اور مضبوطی کا ثبوت نہیں ہیں، کیونکہ ہدفی قتل دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، روس، جاپان اور دیگر میں بھی وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں اور ان ممالک میں بھی بڑے حکومتی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

حالانکہ یہ ممالک لاکھوں کی تعداد میں تربیت یافتہ فوج رکھتے ہیں اور ایسی تربیت یافتہ انٹیلی جنس قوت، وسائل اور مراکز رکھتے ہیں کہ جو ہر سال اپنے پورے ملک کا نصف بجٹ ان پر خرچ کرتے ہیں اور یہ وہ ممالک ہیں جو ہزار سالوں سے اپنے ملکوں میں جنگ وجدل نہیں دیکھ پائے۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممالک کمزور ہیں اور اپنے دفاع کے قابل نہیں؟ یا پھر افغانستان کی امارت اسلامی جو پورے مغربی استعماری طاقتوں کو میدان جنگ میں خاک چٹاچکی ہے، اب ان بے ایمان اور اجرتی داعشی قاتلوں کے مقابلے میں شکست کھا گئی ہے؟ نہیں، نہیں، ایسا نہیں ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ خفیہ دشمن جس کی جنگ اور مزاحمت کھلے میدان میں نہ ہو اور ان کے مراکز معلوم نہ ہوں، جس کے جنگجوؤں اور سازوسامان کا اندازہ ممکنہ حد تک واضح نہ ہو، جس کے کسی علاقے کو قبضے میں لینے اور فتح کرنے کا ارادہ نہ ہو اور جس کے پاس اپنا ہدف مکمل کرنے کے بعد اپنے تحفظ کے لیے کوئی محفوظ مقام نہ ہو تو اسے صرف ایک بے غیرت اور بزدل دشمن کہا جا سکتا ہے؛ اس دشمن کو اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق روکنا چاہیے، لیکن یاد رکھیں! ایسی بزدلانہ کاروائیاں کبھی بھی کسی حکومتی نظام کی قوت کو چیلنج نہیں کرسکتیں اور نہ ہی یہ پاکیزہ مقاصد کو حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ یا خلل ڈال سکتی ہیں۔

لہذا دنیا اور ہمسایہ ممالک کو چاہیے کہ وہ امریکا اور ان کے اتحادیوں کی شرمناک شکست سے عبرت حاصل کریں اور اب افغانستان میں اپنے غیرقانونی انٹیلی جنس مقاصد کے حصول کے لیے ایک بے مثال اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑدیں۔

Author

Exit mobile version