اگرچہ حق کے ساتھ باطل لازما ہوتا ہی ہے لیکن پھر بھی آپ ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ اگر داعش نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟
عراق روافض سے نجات پا چکا ہوتا اور اسلامی نظام کی ایک زندہ تصویر ہوتا، روافض کبھی بھی سنیوں کو اتنا ذلیل نہ کر پاتے جیسے آج انہوں نے ذلیل کر رکھا ہے۔
شام میں بشار الاسد کی ظالم اور استبدادی حکومت برسوں قبل سقوط کر چکی ہوتی اور شام میں الہٰی احکامات کے نفاذ کے لیے زمین برسوں قبل ہموار ہو چکی ہوتی۔
مسلمان مجاہدین کے ہاتھ میں آنے والی قوت و طاقت خوارج (داعش) کے خلاف دفاع میں نہ خرچ ہوئی ہوتی بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے اصلی دشمنوں کے خلاف استعمال ہوئی ہوتی۔
اسی طرح اس فکر نے کسی نہ کسی حد تک پاکستان اور افغانستان کے جہاد کو بھی متاثر کیا کیونکہ یہ خطہ خالص دیوبندی حنفی مذہب سے تعلق رکھتا تھا اسلئے یہ تکفیری فکر اس خطے کو ذیادہ متاثر نہ کرسکی اور یہ جہاد آج بھی محفوظ ہاتھوں میں موجود ہے الحمدللہ
یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک میں جو مسلمان آباد اور انسان کی تخلیق کے مقصد سے آگاہ ہیں، وہ کسی صالح گروہ میں شامل ہورہے ہوتے اور اب تک اس کے مثبت اثرات تمام ممالک میں نظر آ رہے ہوتے۔
پوری دنیا کے مسلمان مجاہدین ایک امیر کی اطاعت میں ہوتے، جیسا کہ ان کی جعلی اور جھوٹی خلافت کے اعلان سے قبل تھا، کہ چاہے بیعت کسی واسطے سے ہی تھی لیکن امیر ایک تھا اور پوری دنیا میں انہیں کی قیادت کے تحت اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر جہاد جاری تھا۔
لیکن جب مغرب کی سربراہی میں اسلام دشمنوں نے دیکھا کہ مسلمان پوری مہارت سے ہمارے جمہوریت اور سیکولرازم کے خوابوں کو ملیا میٹ کر رہے ہیں، تو انہوں نے داعش کے نام سے ایک جھوٹی خلافت کے دعویدار کھڑے کر دیے، جن کی اعلان کردہ خلافت کبھی بھی علیٰ منہاج النبوۃ نہ تھی۔
تاکہ اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر لڑنے والے مجاہدین کی بنیان مرصوص صفیں ان کے ذریعے توڑ ڈالیں اور ان کی مزاحمت کمزور پڑ جائے۔
تاکہ ان کے ہاتھوں اسلامی احکامات لوگوں کی نظر میں بدنام ہو جائیں اور وہ ان کی تحقیر و توہین کا سبب بن جائیں اور مجاہدین کی فتوحات کے سلسلے کو متاثر کر دیں اور اس میں کچھ برسوں کی تاخیر ڈال دیں۔
تاکہ وہ مسلمان جو اپنے ممالک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش میں شب و روز بتا رہے ہیں، ان کے توسط سے وہ اپنے ملکوں سے نکل آئیں اور محاذ پر مسلمان مجاہدین سے جنگ کرنے لگیں۔