ہر شر کی جڑیں آپ تک پہنچتی ہیں

✍️ عبدان صافی

پاکستان کے سرکاری اہلکار اور سفارت کار روزانہ بین الاقوامی میڈیا سے بات چیت میں بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے افغانستان پر الزام تراشی کرتے ہیں، اور ان کا واضح اور واحد مقصد امارت اسلامی اور افغانستان کو بدنام کرنا ہے۔ اگر پاکستانی حکام کے ان اقدامات کے پس پردہ چھپے عوامل کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس سب کے پیچھے پاکستان کی داخلی سیاسی، سماجی اور معاشی بدحالی ہے، جس نے پاکستانی حکام کو پریشان کر دیا ہے۔ اس بدتر حالات میں انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اپنے لوگوں کو کیسے مطمئن کریں، کیونکہ عوام ان کے جھوٹے وعدوں سے تنگ آ چکے ہیں اور ان پر مزید بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی ناکامیوں کا الزام افغانستان پر ڈال رہے ہیں۔

چند دن پہلے ایک پاکستانی سفارت کارآصف درانی نے میڈیا چینل سے گفتگو میں ایک بار پھر افغانستان کے الزامات کو دہرایا، جو نہ صرف حقیقت سے دور تھے بلکہ پاکستان کے ناجائز مطالبات کے تسلسل پر مبنی تھے۔ آصف درانی نے اپنی باتوں میں کہا کہ افغانستان ٬ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کو پاکستان کے حوالے کرے تاکہ مسئلہ حل ہو جائے۔
محترم آصف درانی صاحب ! تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کا افغانستان میں کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ وہ وزیرستان، خیبر اور مومند کے پہاڑوں، دیہاتوں اور گلیوں میں موجود ہیں، جہاں آپ انہیں آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔ اور اگر وہ وہاں آپ کو نہ ملے تو پھر آپ انہیں پشاور، کوئٹہ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے شہروں میں تلاش کریں، کیونکہ وہ چھپے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ ان کے تو وہاں پر مراکز موجود ہیں۔ اگر کہا جائے کہ وہ آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔

درانی صاحب ! دنیا کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آپ اپنے گھر کی حفاظت میں ناکام ہیں؟ آپ شاید اس لیے نہیں بتاتے کیونکہ آپ کی جنگ آپ کے اپنے ہی لوگوں سے ہے جو آپ کے ہر قدم سے بخوبی واقف ہیں اور آپ ان کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہے ۔ اپنی ناکامی کا الزام دوسروں پر ڈالنا درحقیقت اپنی ناکامی کا اعتراف ہے اور اپنی ذمہ داری سے فرار کے مترادف ہے۔

اپنی گفتگو کے دوران آصف درانی نے افغانستان میں لوگوں کے حقوق کا بھی ذکر کیا، لیکن وہ اس بات پر خاموش رہے کہ وہ حقوق جن کا وہ افغانستان کے لوگوں کے لیے مطالبہ کر رہے ہیں، کیا وہ خود پاکستان کے اپنے لوگوں کو دیے جا رہے ہیں؟ وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک پاکستان میں کمزور اور محکوم اقوام پر کیا گزر رہی ہے؟ کیا خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے لوگوں سے جینے کا حق نہیں چھینا گیا؟ کیا ان کے گھر ریاستی طاقت ذریعے زبردستی تباہ نہیں کیے گئے؟ ان کے وسائل نہیں لوٹے گئے ؟ کیا آپ نے اپنی معاشرے کو نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کر دیا؟ اگر آپ اپنی باتوں میں سچے ہیں تو افغانستان کے لوگوں کو حقوق دینے کے بجائے اپنے لوگوں کو ان کے حقوق دیں، کیونکہ افغانستان میں اب ایک خالص اسلامی نظام قائم ہو چکا ہے جو ہر شخص کے مال، عزت اور حقوق کا دفاع کر سکتا ہے اور بخوبی کر رہا ہے، الحمدللہ۔

آصف درانی نے اپنے الزامات میں مزید کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہ موجود ہیں جو دنیا کو ایک اور نائن الیون جیسا خطرہ پیدا کر سکتے ہیں، اور اس سلسلے میں انہوں نے خاص طور پر داعش خراسان کا ذکر کیا۔۔۔ اور کیوں نہ کرتے، کیونکہ داعش خراسان تو ان کا اپنا پروکسی گروپ ہے، جس کا پاکستانی حکام بین الاقوامی میڈیا میں ذکر کرتے ہیں تاکہ داعش کو بڑھا بنا کر پیش کرسکیں ۔ یہ حقیقت اب عیاں ہو چکی ہے کہ داعش خراسان کے جنگجو اور رہنما بلوچستان، خیبر، باجوڑ اور دیر کے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں پر ان کے مراکز ہیں، جہاں وہ پاکستانی فوج کی میزبانی میں ان کے گیسٹ ہاؤسز میں اپنی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر انہیں افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک میں عملی جامہ پہناتے ہیں۔ اگر آصف درانی کے بیانات اور ایک اور نائن الیون کی پیشین گوئیوں کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اپنی پروکسی گروپ داعش خراسان کے ذریعے کسی بین الاقوامی بحران کو جنم دینے کی کوشش میں ہے، اور آصف درانی کے ذریعے ذہن سازی کر رہا ہے۔ لیکن لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس بار اگر کچھ ہوا تو اس کی جڑیں پاکستانی فوج کے گیسٹ ہاؤسز میں ہوں گی اور اس کے معمار پاکستانی فوج کے جرنیل ہوں گے۔

Author

Exit mobile version