ہم اور وہ "حق و باطل”

✍️ احمد منصور

دنیا میں بہت سی قومیں اپنی تاریخ لکھتی ہیں مگر افغان وہ منفرد قوم ہے جو تاریخ رقم کرنے کے بجائے تاریخ بناتی ہے۔

ایک صدی میں اپنے وقت کی تین سپر پاورز کو شکست دینا، صرف انسانی عقل و سمجھ سے ماورا بات ہے لیکن اگر عقل کے ساتھ ایمان و یقین کا رشتہ مضبوط ہو تو پھر یہ ممکنات میں سے ہے۔

ملحدین اور کفارکو غزوہِ بدر، احد اور خلفائے راشدین کے دور میں مختلف بادشاہتوں کی شکست افسانے اور دیو مالائی کہانیاں نظر آتی تھیں مگر اللہ رب العزت نے اکیسویں صدی میں مومنوں سے کیے گیے وعدے پورے کر کے اور ایمانی قوت دکھا کر اس کی زندہ مثالیں دکھادیں، سلف الصالحین کے زمانے اور اکیسویں صدی میں سرزمین افغانستان میں حق و باطل کے مابین جنگی وسائل، امکانات، ساز و سامان میں واضح تفاوت کے باوجود حق کی فتح باطل و اہل باطل کو انگشت بدنداں کیے ہوئے ہے۔

گزشتہ بیس سالہ جدوجہد کو دیکھیں تو طاقت و ٹیکنالوجی پر نظریے کو فتح حاصل ہوئی، سپر پاور امریکہ اور نیٹو کا ابتدائی حملہ، تکبر وغرور، پوری دنیا کو قبضہ کرنے کے دعوے اور اپنی ٹیکنالوجی پر گھمنڈ اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرنے لگے، مگر اس وقت ایک مرد قلندر کی یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی کہ "اسلحہ کسی کی موت کا سبب تو بن سکتا ہے مگر موت سے کسی کی حفاظت نہیں کرسکتا۔”

جی ہاں! باطل کے مقابلے میں حق کے ظاہری اسباب میں کمزوری مگر نصرت خداوندی کے ایمانی وعدوں پر یقین، آزادی کی اہمیت کا علم، جہاد و قتال کی راہ پر ثابت قدمی کا نتیجہ تھا کہ سپر پاور کو صفر کر کے رکھ دیا، یہ کوئی معمولی فتح نہیں، اس موضوع پر مختلف زاویوں سے کافی تحقیقی کام کی ضرورت ہے، مثلا:

اس جہاد کے نتیجہ خیز ہونے کے اسباب کیاہیں؟

اللہ تعالیٰ نے مومن گروہ سے کیے گیے نصرت کے وعدے وفا کیے، مظلوم ومقہور اقوام پر واضح ہوا کہ ایمان والوں کے مقابلے میں باطل کی مادی قوت کی مثال چیونٹی جیسی ہے۔

خلاصہ یہ کہ بیس سال پہلے ہم اور وہ یعنی افغان قوم اور امریکہ کے مابین توازن کیا تقابل کی بھی کوئی صورت نہیں تھی، سب کی یہی سوچ تھی کہ اب دیگر مسلم ممالک کی طرح افغانستان بھی استعمار کے چنگل میں پھنس جائے گا، خدا نخواستہ اسلام کا نام ونشان مٹ کر اتاترکی نظریہ عام ہو جائے گا۔

امریکہ سے جنگ کو خبط و جنون سمجھا جارہا تھا، ان کے ہرکاروں نے فحاشی وعریانی کے فروغ میں جت کر اپنے ایمان کو سستے داموں بیچ ڈالا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ آج اسی امریکہ کی شکست اور میدان جنگ سے فرار کا دن ہے جس کے سامنے بیس سال پہلے پوری دنیا سر بسجود تھی مگر غازی طالبان اور افغان مجاہد ملت نے ان کے سامنے بغاوت کا نعرہ مستانہ لگایا۔

ہر حملہ آور کو چاہیے کہ کہ وہ ۹ سنبلہ (۳۱ اگست) کی تاریخ گوگل پر سرچ کرے کیونکہ آج سے تین سال پہلے اسی تاریخ کو امریکی افواج آدھی رات کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔

Author

Exit mobile version