دراصل جہاد حق و باطل کے درمیان کشمکش شروع ہونے کے بعد سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ مقدس تحریک ایسے جانبازوں کو پیش کرتی رہے گی، جنہیں اللہ تعالی نے ان کی خصوصی صلاحیتوں کے سبب اپنی قربت کے لیے منتخب کیا ہے۔
وہ لوگ جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور خدائی عدل کو پھیلانے کے علاوہ کوئی ذاتی غرض و خواہش نہیں رکھتے، ایسی جماعت اور افراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ، ہر زمانے اور مختلف میدانوں میں اپنے کارنامے دنیا کو دکھائے ہیں، انہوں نے اپنے قول کو سچا کر دکھانے کی خاطر دنیا کی قیمتی متاع، حسین زندگیوں کو بھی اس راہ میں وار دیا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ جہاد ہمیشہ ظالموں اور جابروں کے خلاف ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ ظلم کا آگ بھڑکتی رہے گی اور مجاہد اس کو بجھانے کے لیے ہرقسم کی قربانی دیتا رہے گا۔
آزادی کوئی تحفہ نہیں کہ کسی کو دیا جائے، آزادی حاصل کرنے کے لیے قربانی اور خون کے دریا عبور کرنے ہوتے ہیں۔
یہ اللہ کا حکم ہے جو مسلمانوں کو جہاد اور باطل سے لڑنے کے لیے میدان عمل میں آنے کے لیے نازل ہواہے، یہ حکم قافلے کے راہنماؤں کی شہادت سے نہ رکا ہے اور نہ کبھی رکے گا۔
ایسے بہت سے رجال کار اور ابطال امت ہو گزرے ہیں جو جہاد اور فدا کاری کی راہ کو روشن کرنے کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔
ایسے لوگ جن میں سے ہر ایک بذات خود مثل ایک جماعت تھی، تاریخ نے ان کا نام، نشان اور مقام شہادت درج کر کے دنیا پران کی حیثیت آشکارا کر رکھی ہے۔
یحییٰ سنوار، ایک عظیم شخصیت تھے جن کا فلسطین کی تاریخ میں اہم کردار تھا، یحییٰ اب اسلام کے عظیم سپہ سالاروں میں شامل ہو چکے ہیں۔
سنوار، ایک انتھک جنگجو، حماس کے سیاسی و عسکری امور کے سربراہ، نے اپنی شہادت سے دنیا کو بیدار کیا اور سب پر واضح کر دیا کہ جب کوئی مسلمان کہتا ہے کہ ’’الموت فی سبیل اللہ اسمٰی امانینا‘‘ اللہ کے راستے میں شہادت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے، یہ کوئی جھوٹ یا خالی نعرہ نہیں، بلکہ یہ ایک پختہ ایمان اور یقین کا ثمر ہے جو ہر مسلمان کے دل میں پیوست ہے۔
یحییٰ سنوار نے ان تمام لوگوں کے لیے جو ابھی تک صہیونیت کے سفاک چہرے کو نہیں جانتےتھے، یہ واضح کر دیا کہ ان کی تمام باتیں اور منصوبے جھوٹے ہیں اور ان کے عقیدہ میں تباہی اور ناانصافی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
شہید سنوار کو اپنی زندگی میں اذیت اور جیل کے بہت سے تجربات ہوئے، انہوں نے صہیونیت کی خونخوار حکومت کی اسیری میں اپنی عمر کے کئی برس گزارے اور تشدد سے وہ آشنا تھے۔
شہید سنوار نے بڑی بہادری سے شہادت کا پیالہ پیا اور اپنے آپ کو اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا اور اپنے کمزور دشمن کو دکھا دیا کہ کسی مسلمان کی قوت ارادی کے خلاف لڑنے کا کوئی امکان نہیں۔
شہید یحییٰ سنوار کی زندگی پر ایک مختصر نظر!
یحیی سنوار کون تھے؟
یحییٰ ابراہیم حسن السنوار، ابو ابراہیم کے نام سے مشہور تھے وہ اکتوبر ۱۹۶۲ء میں غزہ کے جنوب میں خان یونس میں پیدا ہوئے، وہ عربی زبان کے ماہراور انہیں عبرانی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔
ان کے تین بیٹے ہیں، انہیں صہیونی حکومت نے ۱۹۸۰ء کی دہائی کے اوائل میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں قبضے کے خلاف سرگرمیوں کی وجہ سے کئی بار گرفتار کیا تھا۔
یحییٰ ہمیشہ ان تحریکوں میں شامل رہے، جو صہیونیت کے خلاف میدان عمل میں تھیں، تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے صہیونی حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت کے لیے مجاہدین کا ایک نیٹ ورک بنایا، جو بالآخر حماس کی عسکری شاخ القسام گروپ میں تبدیل ہوگیا۔
سنوار۱۹۸۷ء میں شیخ احمد یاسین کی جانب سے حماس کی تاسیس کے وقت ہی اس گروپ میں شامل ہوئے، صہیونیوں کی جانب سے موصوف شہید کو کئی بار گرفتار کیا گیا، آخری بار گرفتار کرنے کے بعد انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن ۲۳ سال بعد قیدیوں کے تبادلے میں انہیں صہیونی جیلوں سے رہا کروا لیا گیا۔
شہید سنوار نے ۲۰۱۴ء میں صہیونی حکومت کے غزہ پر سات ہفتے تک جاری رہنے والے حملے کے خلاف فعال کردار ادا کیا تھا جس کے بعد انہیں امریکہ نے بلیک لسٹ کر دیا تھا۔
سن ۲۰۱۷ء میں سنوار غزہ کے لیے حماس کے رہنما بنے اور شہید اسماعیل ھنیہ کی جانشینی کی، ۲۰۲۳ء میں حماس نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کا آغاز کیا اور سنوار اس آپریشن کے ماسٹر مائنڈ تھے۔
اگرچہ طوفان الاقصیٰ کو شروع ہوئے ایک سال گزر چکا ہے، لیکن یہ سال حملہ آوروں کے لیے بدترین اور خوفناک ترین تھا، کیونکہ غزہ میں ایک شیر زندہ تھا، وہ شیر جس نے حملہ آوروں کو کچلنے کے لیے دشمن کے دل پر حملہ کر رکھا تھا۔
اگرچہ یحییٰ سنوار عسکری نقطہ نظر سے انتہائی پُر سکون حالت میں تھے، لیکن ان کا جذبہ شہادت اور باطل سے لڑنے کی تمنا انہیں شکستہ بازو اور زخمی جسم کے ساتھ جنگ کے میدان میں لے آئی، میدان جہاد میں وہ ایک ہتھیار، ٹوٹے ہوئے بازو اور زخمی جسم کے ساتھ فلسطین اور اسلام کے دشمنوں کا انتظار کر رہے تھے، اس حالت میں وہ اللہ پرایمان اورعقیدہ توحید سے معمور دل لیے لڑتے رہے۔
دنیا اس کی بہادری اور جرات کو دیکھ کر حیران رہ گئی، دنیا کے بڑے بڑے سیاستدان اورممالک کے رہنما اس درجے کی بہادری اور جرات پرتعجب میں پڑ گئے۔
وہ اسلام کے بہترین رہنما اور بہترین جنگجو تھے، جنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی جہاد اور دشمن سے لڑنے کو فراموش نہیں کیا۔
یحییٰ السنوار، جنہوں نے دشمنان اسلام میں اس قدر خوف و ہراس پھیلا دیا تھا کہ ان کا لاشہ دیکھ کر بھی وہ خوفزدہ اور کانپ اٹھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے دین اسلام اور اپنے شعائر کی حفاظت کے لیے ایسے بے شمارمردانِ میدان اور رجال کار پیدا کیے ہیں، اگر ان میں سے کوئی ایک شہادت کا پیالہ پی لے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد کوئی نہیں بچا اور یہ قصہ ختم ہو گیا، بلکہ یہ ایک الہٰی سنت ہے کہ ایک رہنما کی شہادت پراس تحریک کے لیے مزید ہزاروں ہتھیاربند فدا کار سپاہی تیار ہوجاتے ہیں۔