اس وقت جب پوری دنیا یک قطبی (یونی پولر) ہو چکی تھی، اور کفار امریکی کی قیادت میں اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کا عزم لے کر نکلے تھے، تب ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہیں امریکہ کی شکست کا اتنا ہی یقین تھا جتنا اللہ کی وحدانیت کا۔
انہیں چاہے ان کے رشتہ داروں، پڑوسیوں، خطیبوں، اساتذہ اور دیگر لوگوں نے جو کچھ بھی کہا کہ تم لوگ امریکہ سے، جو کہ پوری دنیا پر راج کرتا ہے، جنگ نہیں کر سکتے، یہ لڑائی نہیں جیت سکتے، لیکن یہ باتیں انہیں کمزور اور مایوس کرنے کی بجائے مزید قوی اور پرعزم کر دیتیں۔
وہ اس چودھویں قرن میں قرون اولیٰ کے لوگوں کی راہ پر چل رہے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ) [ آل عمران / ۱۷۳ ]
ترجمہ: وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا: یہ لوگ تمہارے مقابلے کے لیے جمع ہو گئے ہیں، لہذا ان سے ڈرو، تو اس خبر نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا اور وہ بول اٹھے کہ: ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
چاہے ان کے سروں پر بی۵۲ (B-52) طیارے گھوم رہے ہوں، یا سمندر سے ان پر کروز میزائل داغے جا رہے ہوں، یا اپنے گھر اور پڑوس میں ان پر زمین تنگ کر دی گئی ہو، لیکن پھر بھی انہیں اللہ کے اس فرمان پر مکمل ایمان تھا کہ:
(وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ [آل عمران: 139]
ترجمہ: پست ہمت نہ ہو اور نہ ہی غم کھاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
یہی وجہ تھی کہ انہوں نے عالمی طاغوت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے جہاد و جدوجہد کی راہ اختیار کی، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی خرابی کی خاطر اس قدر تیز جنگ کی کہ خود اپنے ہی بنائے ہوئے جنگی قوانین بھی توڑ ڈالے۔ لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ ان کا مقابلہ فولادی ایمان رکھنے والوں سے ہے تو انہوں نے اس فوجی جنگ میں شکست تسلیم کر لی۔
لیکن فوجی جنگ میں شکست کے بعد اس نے نظریاتی جنگ اس قدر تیز کر دی کہ بہت کم عرصے میں دور دراز علاقوں تک سینکڑوں ٹی وی چینلز، ریڈیو سٹیشنز، اخبارات و رسائل پہنچائے جو اسلامی اقدار، افغان ثقافت اور معاشرتی معیارات کے خلاف پراپیگنڈہ نشر کرتے تھے۔ اس سب کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ اس قوم کو ذہنی طور پر شکار کرنا اور نظریاتی استعمار میں لانا چاہتا تھا۔
لیکن الحمد للہ! افغانستان کی مجاہد عوام کا تعاون تھا اور مجاہدین اور جانباز نوجوانوں کی استقامت تھی کہ اس نظریاتی جنگ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ہمارے ملک کو فوجی و نظریاتی دونوں طرح کی جنگوں سے نجات مل گئی اور امریکہ اور اس کے حواری شکست خوردہ اور ذلت کے عذاب میں مبتلا ہو گئے۔
احزاب کی شکست کا معجزہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر دہرا دیا، اُن احزاب پر اللہ تعالیٰ نے ظاہری آندھی مسلط کر دی تھی جس نے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا، لیکن چودھویں قرن کے احزاب پر اللہ تعالیٰ نے روحانی آندھی مسلط کر دی جس سے ان کے دل لرز اٹھے اور وہ شکست کھا گئے۔