اسلامی نظام میں خارجہ پالیسی کی اہمیت!

عزیز باران

عام طور پر سیاست زندگی گزارنے کا ایک فن ہے، جس کے ذریعے کوئی نظام نہ صرف اپنے اقدار اور مفادات کی حفاظت کرتا ہے بلکہ دنیا کے سینکڑوں نظاموں اور طاقتوں کے درمیان خود کو زندہ، فعال اور خودمختار رکھتا ہے۔ فیصلے کرنے اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی مقصد کے لیے خارجہ پالیسی کو ایک اہم موضوع سمجھا جاتا ہے۔

خارجہ پالیسی قوموں اور ریاستوں کی سماجی و سیاسی زندگی کا ایک بنیادی پہلو ہے، کیونکہ ان کی بقا اور استحکام اسی سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا کے سفارتی تعلقات اور پالیسیوں میں خارجہ پالیسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

اسلام، جو ایک الٰہی اور دائمی نظام ہے، ایک بہترین خارجہ پالیسی کا حامل دین ہے۔ اس کے اصول نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی حیاتِ مبارکہ، طرزِ عمل اور اس زمانے میں دیگر حکومتوں سے تعلقات کی بنیاد پر استوار کیے گئے ہیں۔

قرآنِ کریم سیاسی معاملات میں اجمالی انداز میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، جن کی بنیاد پر اسلامی خارجہ پالیسی کے اصول اخذ کیے جاتے ہیں۔ یہ اصول چند اساسی اصولوں پر استوار ہیں، جن پر توجہ دیے بغیر اسلامی خارجہ پالیسی ادھوری اور ناقص تصور ہوتی ہے۔

ذیل میں ان بنیادی نکات کا ذکر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

۱۔ قرآنِ کریم کی تعلیمات کے مطابق اسلامی خارجہ پالیسی کے اصول اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ تصور کہ دین اور سیاست الگ الگ چیزیں ہیں، اسلام میں ایسے نظریے کی کوئی حیثیت نہیں؛ کیونکہ اسلام خود ایک مکمل نظامِ سیاست ہے، جو عیسائیت یا دیگر مذاہب کی طرح دین اور ریاست کو ایک دوسرے سے جدا نہیں سمجھتا۔

۲۔ اسلامی سیاست، خصوصاً خارجہ پالیسی، صرف نبی کریم ﷺ، صحابۂ کرام اور خلفائے راشدین کے زمانے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہر دور کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اسلامی ممالک کے لیے اس میں تعامل کے اصول اور حل موجود ہیں۔ چونکہ اسلام ہر زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، اس لیے دنیا کے بدلتے سیاسی حالات کے مقابلے میں اسلام کا نقطۂ نظر اور لائحہ عمل واضح اور مکمل ہے۔

اسلام کی خارجہ پالیسی کے اصول وہ رہنما ہدایات ہیں جو اسلامی ریاست کی عمومی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں اور جو بیرونی تعلقات کو دینی مآخذ کی روشنی میں منظم کرنے کے لیے ایک واضح لائحۂ عمل فراہم کرتے ہیں۔ ان اصولوں میں دعوت یا جہاد کا تصور، ظلم اور زیادتی کا خاتمہ، نفی سبیل (اسلام پر تسلط یا غلبے کی ہر کوشش کی نفی)، اسلامی عزت و وقار کا تحفظ، دینی سیاست اور بین الاقوامی معاہدوں کے ساتھ وفاداری اور التزام شامل ہیں۔ بعض دیگر مسلم مفکرین اور سیاستدانوں نے ولاء و براء (دوستی و دشمنی بر اساسِ عقیدہ)، تالیفِ قلوب اور امر بالمعروف کو بھی اسلامی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں شمار کیا ہے۔

تالیفِ قلوب یا دلوں کو قریب لانے کے ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں اسلامی خارجہ پالیسی کو اقتصادی ذرائع اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ یعنی اسلامی ریاستیں غیر مسلم اقوام کے دل جیتنے اور دشمنی کی شدت کم کرنے کے لیے ان وسائل سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اس کی بہترین مثال رسول اللہ ﷺ کا وہ عمل ہے جب غزوۂ حنین کے بعد آپ ﷺ نے نو مسلم اشرافیہ اور ان مشرک قبائلی سرداروں کو، جنہوں نے اسلام کی حمایت کی تھی، مالِ غنیمت میں سے ’’مؤلفة القلوب‘‘ کے حصے دیے تاکہ ان کے دل اسلام کی طرف مائل ہوں۔

اسلامی خارجہ پالیسی میں دعوت اور جہاد دونوں نہایت اہم اصول ہیں اور ممکنہ طور پر یہی وہ اصول ہیں جن پر سب سے زیادہ علمی و فکری بحث ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت کو یہ دونوں اصول سب سے بہتر انداز میں واضح کرتے ہیں۔ مسلمان مفکرین ان دونوں کو اس لیے یکجا بیان کرتے ہیں کہ اگر صرف دعوت پر اکتفا کیا جائے تو جنگ و امن کے متعلق اسلامی زاویۂ نظر نظرانداز ہو جاتا ہے اور اگر صرف جہاد پر زور دیا جائے تو دعوت کی روح ادھوری رہ جاتی ہے۔

اسی بنا پر اسلامی خارجہ پالیسی میں دعوت اور جہاد کو ایک ایسا مربوط اور متوازن تصور سمجھا جاتا ہے، جو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور مشترکہ طور پر اسلام کی بین الاقوامی حکمت عملی کی نمائندگی کرتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میں ابتدا میں جنگ کی بجائے اس وقت کی بڑی سلطنتوں اور بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے سفارتی خطوط اور نمائندے بھیجے۔ جہاد کا مرحلہ بعد میں آیا، جو اس متوازن خارجہ پالیسی کی بہترین مثال ہے۔ ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن روانہ فرمایا تو مجھے ارشاد فرمایا: ’’اے علی! اگر تمہارے ہاتھوں اللہ کسی ایک شخص کو ہدایت دے دے، تو یہ تمہارے لیے ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔‘‘

اسلامی نظام کی خارجہ پالیسی کا ایک اور اہم ستون، غیر مسلم اقوام یا ریاستوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں اور معاہداتی ذمہ داریوں کی پاسداری ہے۔ قرآن کریم نے ایفائے عہد پر سخت تاکید کی ہے۔ تاہم، اسلامی ریاست ان معاہدوں کی پابندی صرف اس وقت تک کرے گی جب تک کہ وہ مسلمانوں کی سیاسی، عسکری یا ثقافتی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے کا سبب نہ بنیں۔ اگر کوئی معاہدہ مسلمانوں کو زیرِ دست بنائے یا ان کے اقتدار و اختیار کو مشکوک بنائے، تو ایسے معاہدے شرعاً درست نہیں۔

اسی اصول کا تقاضا ہے کہ کسی بھی سیاسی، عسکری، اقتصادی یا ثقافتی میدان میں کفار کو اسلامی معاشروں پر غلبہ حاصل نہ ہو۔ اسلامی خارجہ پالیسی کو اس انداز سے مرتب کیا جانا چاہیے کہ وہ کفار کو مسلمانوں پر اثرانداز ہونے یا ان پر بالادستی حاصل کرنے کا موقع نہ دے۔

نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی عزت و وقار کا تحفظ، اسلامی خارجہ تعلقات کی بنیاد ہے۔ کیونکہ اسلام ایک آسمانی، مکمل اور برتر دین ہے جس کی فوقیت پر قرآن نے دوٹوک الفاظ میں زور دیا ہے: "إن الدین عند الله الإسلام” اور "ومن یبتغ غیر الإسلام دیناً فلن یقبل منه”۔ لہٰذا، اسلامی ریاست کو ایسی خارجہ پالیسی سے اجتناب کرنا چاہیے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو کمزور یا مبہم کرنے کا سبب بنے۔

آج کئی کفری ممالک اور ان کے قانونی ادارے یہ کوشش کرتے ہیں کہ جہاد کو اسلامی خارجہ پالیسی سے نکال کر اس کی حیثیت کو بدل دیں یا اس کا مفہوم مسخ کریں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاد، اسلامی سیاسی طاقت کے تحفظ اور خارجہ حکمت عملی کے دفاع کا ایک ناگزیر اصول ہے۔

Author

Exit mobile version