اسلامی نظام کے فوائد و خصوصیات | چوتھی قسط

ابو جاوید

اسلامی نظام کے فوائد وخصوصیات کے سلسلے میں، آج ہم اس نظام کے چند مزید فوائد آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں:

۵۔ اسلامی نظام ایک اخلاقی نظام ہے؛

اسلام ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو اچھے اخلاق اپنانے اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا [سورة الانسان: 7]

ترجمہ: اور وہ (نیک لوگ) مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں، حالانکہ وہ خود اس کی خواہش رکھتے ہیں۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’سباب المسلم فسق و قتاله کفر‘‘ (رواه البخاري ومسلم)

ترجمہ: مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس کا قتل کفر ہے۔

اسلام سماجی زندگی کی طرح جنگ کے میدان میں بھی خاص اخلاقی اصول رکھتا ہے، جو کسی دوسرے نظام میں نہیں پائے جاتے، مثلاً: مجاہدین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کریں، اس حوالے سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے میدان میں ایک مقتول عورت کو دیکھا، تو فرمایا:

’’ فنهی رسول الله عن قتل النساء والصبیان‘‘

ترجمہ: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع کیا۔ (رواه البخاري ومسلم)

یہ وہ اسلامی نظام ہے جو تمام انسانوں کے حقوق کا احترام کرتا ہے، ورنہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے انسان نما جانوروں نے کیسے کیسے مظالم ڈھائے ہیں؟

جمہوری یا ڈیموکریٹک ہی وہ نظام ہے، جس نے وحشت اور ظلم کے پہاڑ توڑ کر غزہ میں تقریباً (50,000) معصوم بچوں اور بزرگوں کا قتل عام کیا، جو خود کو انسانی حقوق، تمدن اور اخلاقیات کا علمبردار سمجھتے ہیں۔

یہ ایک ایسا وصف ہے جو اسلام کی پھیلاؤ اور وسعت کا ایک بڑا سبب بھی بنا ہے؛ کئی مرتبہ یہی اخلاقیات سبب بنی ہیں کہ کسی کے دل کی تاریکی میں اسلام کی روشنی داخل ہو جائے، میں اس وقت موجودہ دور کی دو مثالیں یہاں ذکر کرتا ہوں۔

پہلی مثال:

ٹیموتھی وِکس جو آسٹریلیا کا باشندہ تھا، وہ امریکی قبضے کے دوران طالبان کے ہاتھوں گرفتار ہوا، دوران اسارت امارت اسلامی کے بااخلاق مجاہدین کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا۔ جب وہ تبادلے کے بعد اپنے ملک واپس گیا، تو وہاں سے امارت کی آغوش میں واپس آیا اور اسلام کی وہ روشنی اس کے دل میں گھر کر گئی، جسے وہ ساری زندگی تلاش کرتا رہا تھا، اور پھر ٹیموٹی سے وہ جبرائیل عمر بن گیا۔

دوسری مثال:

غزہ میں قیدیوں کے تبادلے جاری ہیں، فریقین نے قیدیوں ایک دوسرے کے قیدی رہا کررہے ہیں، لیکن وہ قیدی جو مسلمانوں کے قبضے میں تھے، ان کے چہروں پر قید و بند کا کوئی نشان یا اثر نہیں، وہ ایسے لگ رہے تھے جیسے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے جان بوجھ کر علیحدگی اور گوشہ نشینی اختیار کی تھی اور اب دوبارہ سماجی زندگی میں واپس آ گئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ وہ ظلم نہیں ہوا جو کفار کے قید خانوں میں مسلمانوں پر روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ القسام کے نوجوانوں کے یہ عالی اخلاق ان قیدیوں کو اپنے منحرف راستے اور باطل دین سے برگشتہ ہونے پر ضرور مجبور کریں گے۔

دینِ اسلام تو اپنے پیروکاروں کو جانوروں کے ساتھ بھی ظلم و ستم کی اجازت نہیں دیتا، اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’في کل ذات کبد رطبة أجر‘‘(رواه البخاري)

ترجمہ: ہر تر جگر والے (جاندار) کے ساتھ احسان کرنے میں اجر ہے۔

لہذا اسلام ایک ایسا دین ہے جو اخلاق، تمدن، تہذیب اور انسانی عزت و کرامت کی پاسداری کرتا ہے، اسلامی تعلیمات ہمیشہ سے ان تمام شعبوں میں مثبت کردار ادا کرنے پر زور دیتی ہیں، اس لیے یہ قدرتی بات ہے کہ اس دین پر مبنی نظام بھی انسانی اخلاقیات کی پاسداری کرنے والا اور تمام انسانی حقوق کے تئیں عہد بند نظام ہوگا۔

Author

Exit mobile version