اسلام پر حملہ: صہیونیت اور خوارج کی مشترکہ سازش!

احسان عرب

اگرچہ داعش کی مکروہ تنظیم اور صہیونی رژیم کے درمیان ظاہری طور پر کوئی باضابطہ یا واضح تعلق موجود نہیں، لیکن گزشتہ برسوں میں متعدد شواہد اور گہرے تجزیات نے اس بات کو عیاں کیا ہے کہ ان دونوں کے مفادات میں ہم آہنگی اور اہداف میں یکسانیت ہے، خاص طور پر اسلامی ممالک میں بحران پیدا کرنے اور جہادی گروہوں کو کمزور کرنے کے حوالے سے۔

گو کہ دونوں کی شکل اور ساخت میں فرق ہے، لیکن دورِ حاضر کے خوارج (داعش) اور صہیونی رژیم کئی معاملات میں مشترکہ مفادات رکھتے ہیں اور اگرچہ وہ ایک دوسرے سے الگ عمل کرتے ہیں، لیکن ایک ہی سمت میں گامزن ہیں۔ یہاں ہم ان کی ناپاک سرگرمیوں کی چند اہم مثالوں کا مختصر ذکر کریں گے:

1. حقیقی اسلامی روح پر حملہ:

دورِ حاضر کے خوارج (داعش) نے اندھے تشدد، تکفیر اور غیر انسانی اقدامات کے ذریعے دنیا کے سامنے اسلام کا ایک بدصورت، جھوٹا اور مسخ شدہ چہرہ پیش کیا ہے۔ یہ وہی تصویر ہے جو صہیونی رژیم اور مغرب کے زہریلے اسلام مخالف پروپیگنڈے کے طویل المدتی اہداف کے عین مطابق ہے۔

اسلام کو وحشی اور تشدد پسند دین دکھانا صہیونی بالادستی کے مفاد میں ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ عالمِ اسلام کو عالمِ کفر کے لیے ایک ممکنہ خطرہ کے طور پر پیش کیا جائے۔

2. جہادی گروہوں سے دشمنی:

داعش، جو خود کو اسلام کا محافظ ظاہر کرتی ہے، عملی طور پر اس نے سب سے زیادہ جہادی گروہوں کے خلاف جنگ کی ہے، بالخصوص ان گروہوں کے خلاف جو اسرائیلی پالیسیوں کے ساتھ براہِ راست متصادم ہیں۔

ہر جگہ جہاں بھی کوئی گروہ یا اسلامی تحریک صہیونی رژیم کے خلاف اٹھی، وہاں خوارج نے فوراً سر اٹھایا اور ان گروہوں کے خلاف لڑائی شروع کر دی، گویا وہ صہیونی رژیم کی طرف سے بھیجے گئے ہوں۔

3. اسلامی ممالک کی تقسیم:

اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی رژیم کے اسٹریٹجک مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ "نیو مڈل ایسٹ” یا "برنارڈ لیوس” کے منصوبے کے مطابق بڑے اسلامی ممالک کو چھوٹی، کمزور اور بے بس ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

داعش نے بھی اپنی نام نہاد خلافت کے قیام کے ذریعے عراق، شام اور دیگر اسلامی ممالک میں اس منصوبے کو مزید تقویت دی اور مرکزی حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔

اگر ہم داعش اور صہیونی رژیم کی سرگرمیوں کا قریب سے جائزہ لیں تو ان کے مشترکہ خصائص یقیناً ہماری توجہ اپنی طرف کھینچیں گے، جیسے کہ:

1. بے گناہ لوگوں کا قتل:

صہیونی رژیم اور دورِ حاضر کے خوارج (داعش) دونوں ہی بے گناہ اور بے بس لوگوں کے قتل میں ملوث ہیں۔ انہوں نے بارہا بزدلانہ کارروائیوں کے ذریعے بوڑھوں، عورتوں، بچوں اور حتیٰ کہشیر خوار بچوں کو بھی قتل کیا اور ان ناپاک اقدامات کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔

2. دینی مقدسات کی بے حرمتی:

داعشی خوارج نے مساجد، زیارتوں اور دینی مقامات کو نذرِ آتش کرنے اور بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے ذریعے، جبکہ صہیونی رژیم نے مسجدِ اقصیٰ پر حملوں اور غزہ کی مساجد پر بمباری کے ذریعے اسلامی مقدسات کی توہین کی۔

3. میڈیا اور نفسیاتی جنگ:

دونوں فتنے، یعنی داعش اور صہیونی رژیم، میڈیا اور ورچوئل دنیا سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں تاکہ عوامی ذہنوں پر اثر انداز ہوں، خوف پھیلائیں اور اپنے زہریلے مقاصد کو آگے بڑھائیں۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ داعش اور صہیونی رژیم کی سرگرمیوں اور مقاصد سے جو حقیقت سامنے آتی ہے، وہ ایک تلخ لیکن ناقابلِ تردید سچائی ہے:

داعشی خوارج اور صہیونی رژیم، اگرچہ ظاہری طور پر الگ ہیں، لیکن عملی طور پر قینچی کی دو دھاروں کی طرح ہیں جو اسلامی امت کو کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہیں۔

Author

Exit mobile version