گذشتہ شب پاکستان کے جنگی طیاروں نے ڈیورنڈ لائن کے قریب صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں بمباری کی، جو کہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب پاکستان کا ایک سیاسی وفد، افغانستان کے لیے اپنے خصوصی نمائندے صادق خان کی قیادت میں، کابل میں افغان حکومتی رہنماؤں سے ملاقاتوں اور مذاکرات میں مصروف تھا۔ اس حملے نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے سول حکومت پر فوج کی ایک مخصوص لابی کی بالادستی کو اجاگر کردیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی حکومت ایک طرف سفارتی مذاکرات کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف ایک لابی ایسی بھی ہے جو نہیں چاہتی کہ یہ کوششیں کامیاب ہوں۔ یہ لابی بے گناہ لوگوں کا خون بہاتی ہے، جو کہ اس کی منافقت، غیر قانونی سیاست اور غیر سنجیدہ پن کی بدترین مثال اور مستقل روش ہے۔
فوج میں یہ لابی قومی اور ریاستی مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہے اور ایسے اقدامات اٹھاتی ہے جو نہ صرف خطے میں بدامنی کو بڑھاتے ہیں، بلکہ اپنی عوام اور ملک کو عالمی سطح پر شرمندگی، ذلت اور داخلی تناؤ کا شکار کرتے ہیں۔
افغان سرزمین پر بمباری کے ذریعے اس مخصوص لابی نے یہ پیغام دیا کہ وہ خطے میں امن اور مفاہمت کی ہر سنجیدہ، مثبت اور حقیقی کوشش کو روکنے کے لیے اپنی پالیسی پر قائم رہے گی۔ ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات کو سبوتاژ کرنا بھی اس لابی کی ایک کامیاب کوشش تھی اور وہ جرنیل جو امن کے ذریعے مسئلے کا حل چاہتے تھے، ان میں سے بعض کے خلاف مختلف مقدمات بنائے گئے، کچھ کو ملک سے فرار پر مجبور کیا گیا اور کچھ کو مختلف بہانوں سے جیل میں ڈال دیا گیا۔
اس حملے میں زیادہ تر وہ پناہ گزین نشانہ بنے ہیں جو پاکستان میں جاری فوجی آپریشنز کے نتیجے میں بے گھر ہو کر افغانستان کے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ افغان حکومت نے ان پناہ گزینوں کے لیے فرضی ڈیورنڈ لائن سے دور پناہ گزین کیمپ قائم کیے اور زیادہ تر انہیں ایسی ہی جگہوں پر منتقل بھی کیا گیا تاکہ پاکستان کے خدشات کو دور کیا جا سکے، لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود افغان سرزمین پر بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانا نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔
پاکستانی فوج میں اس مخصوص لابی کا یہ رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہيں کہ وہ اپنی بقاء اور معاشی مفادات کے لیے جنگ اور بدامنی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر ایسے حملے کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک ایک اور جنگ میں ملوث ہوں۔
اس لابی کی اس نوعیت کی کاروائیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر خطے میں امن اور سکون نہیں چاہتی، کیونکہ امن کے قیام کے ساتھ نہ صرف ان کے فوجی اور سیاسی اثرورسوخ کا خاتمہ ہوگا، بلکہ ان کی جنگی معیشت بھی شدید نقصان اٹھائے گی۔
پاکستان کی داخلی صورتحال اس پالیسی کا مکمل منظر پیش کرتی ہے۔ اس وقت ملک شدید سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار ہے جس کی اصل وجہ اس مخصوص لابی کی ہر مسئلے میں مداخلت ہے۔ انہوں نے ملک کو اپنی ذاتی جاگیر اور ملکیت سمجھ لیا ہے، جہاں سیاسی قیادت کو کمزور کرنا، سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالنا، میڈیا پر پابندیاں لگانا اور عوام پر گولیاں چلانا، انہیں قتل کرنا اور لاپتہ کرنا معمول بن چکا ہے۔
اس وقت سیاست اور معیشت دونوں شعبے اس لابی کی ناکام پالیسیوں کی قربان گاہ بن چکے ہیں، جس سے عوام کو شدید نقصان پہنچا ہے اور حتی کہ انہیں اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔
افغانستان پر اس مخصوص لابی کا حملہ یہ حقیقت مزید واضح کرتا ہے کہ فوج نے اپنی داخلی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے بیرونی حملوں کو ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔ اس لابی کی یہ حکمت عملی نہ صرف پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خطے میں بدامنی اور بحران کو بھی بڑھاوا دے رہی ہے۔
فوج عالمی سطح پر اپنے جنگی معاشی فوائد کے حصول کے لیے ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے جرنیلوں کی جیبیں تو بھرنے میں کامیاب ہوجائے گی، لیکن ملک اور عوام مزید غریب اور غیر مستحکم ہوتے جائیں گے۔ اس لابی کی پالیسیوں کی بدولت پاکستان عالمی سطح پر ایک غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھرا ہے، جہاں نہ قانون کی حکمرانی ہے، نہ انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین پر عمل کیا جاتا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں فوج نے پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو اپنے مفادات کے لیے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ نہ صرف ان کی حیثیت کو نقصان پہنچا ہے، بلکہ خطے میں امن کے قیام کے امکانات بھی ختم ہو گئے ہیں۔
افغان سرزمین پر حملے، چاہے وہ کسی فرضی خطرے کے خلاف ہوں یا کسی اور بہانے کے تحت، دراصل فوج میں اس لابی کی ان پالیسیوں کا حصہ ہیں جن کا مقصد اپنے اقتصادی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، چاہے اس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون بہتا ہو۔
پاکستان کے عوام کو یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ یہ لابی کب تک ان غیر ذمہ دار پالیسیوں کو جاری رکھے گی اور کب ایسا نظام آئے گا جس میں انسانی زندگی اور بین الاقوامی قوانین کے احترام کو ترجیح دی جائے گی۔
پاکستانی عوام کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کی فوج کی یہ مخصوص لابی نہیں چاہتی کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ان کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہو۔ اس لابی نے دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنے، موجودہ تنازعات کو بڑھاوا دینے اور عوامی جذبات کو دبانے کے لیے مختلف راستے اختیار کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان اور خطے میں بیرونی ایجنڈوں کو بھی آگے بڑھا رہے ہیں۔
افغانستان اب ایک مضبوط قیادت کے تحت ہے جو ہر قسم کی جارحیت کا مؤثر اور جرات مندانہ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے کسی بھی حملے یا جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اگر اس خطے میں پاکستانی فوج کی غیر ذمہ دار پالیسیوں کی وجہ سے جنگ کی فضا قائم ہوگی تو اس کے منفی اثرات دونوں ممالک کے عوام پر پڑیں گے۔
اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کی عوام اور سیاستدان اس مسئلے کی سنگینی پر توجہ دیں اور اس بے قابو فوجی لابی کی ناجائز مداخلت کا راستہ روکیں، تاکہ پاکستان، افغانستان، خطہ اور دنیا ان کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکے۔