افغانستان اور ہندوستان کے بڑھتے تعلقات؛ مشترکہ مفادات کی تلاش

عبدان صافی

#image_title

ہندوستان اور افغانستان کے درمیان زمینی سرحد تو موجود نہیں مگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے، جو ثقافتی، تجارتی اور سفارتی بنیادوں پر استوار رہی ہے، تاہم پاکستان نے ہمیشہ ان تعلقات کو شک و شبہات کی نظر سے دیکھا اور ہر ممکن کوشش کی کہ افغانستان میں ہندوستان کے کسی بھی کردار کو محدود کیا جائے۔

اس پالیسی نے نہ صرف پاکستان کے لیے سفارتی مسائل کو جنم دیا بلکہ افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات بھی مزید پیچیدہ ہوئے۔

حالیہ دنوں میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور ہندوستان کے سیکرٹری خارجہ وکرم مِسری کی دبئی میں ملاقات کو اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے، جو نہ صرف ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ایک نئے دور کی شروعات ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان کے لیے ایک اور سفارتی چیلنج بھی بن سکتی ہے۔

پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہمیشہ تضادات اور غلط فیصلوں کا شکار رہی ہے۔ اسلام آباد نے 1990ء کی دہائی میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا ، لیکن جب 2021ء میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو پاکستان نے یہ امید باندھ لی کہ وہ کابل پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھ سکے گا، تاہم طالبان حکومت نے جلد ہی یہ واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کے تابع نہیں بلکہ اپنی خودمختار خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں، خاص طور پر جب پاکستان نے افغان مہاجرین کے خلاف سخت اقدامات کیے اور امارت اسلامی پر سرحد پار حملوں کا الزام لگایا اور ردِ عمل میں افغانستان کی سرزمین پر بمباری اور حملے کئے۔

پاکستان کی سب سے بڑی ناکامی اس کی وہ پالیسی رہی ہے جس میں اس نے ہمیشہ افغانستان کو اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کے نظریے کے تحت دیکھا اور اسے ایک آزاد ریاست کے بجائے اپنے مفادات کے تابع رکھنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس، ہندوستان نے ہمیشہ افغانستان میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر توجہ دی، تعلیمی وظائف دیے، سڑکوں اور اسپتالوں کی تعمیر میں مدد کی، اور افغان عوام کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کیے۔ یہی وہ فرق ہے جو آج واضح ہو رہا ہے، جہاں پاکستان امارت اسلامی کے ساتھ معاملات طے کرنے میں مشکلات کا شکار ہے، وہیں ہندوستان کے ساتھ مذاکراتی دروازے کھلے ہیں۔

دبئی میں ہونے والی حالیہ ملاقات کو صرف ایک رسمی سفارتی سرگرمی کے طور پر دیکھنا غلط ہوگا۔ امارت اسلامی نے اس ملاقات کے ذریعے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نئے رخ پر لے جانے کے لیے تیار ہے۔ اس ملاقات میں جہاں سفارتی ، اقتصادی اور تجارتی امور پر گفتگو ہوئی، وہیں سیکیورٹی اور علاقائی استحکام کے معاملات بھی زیر بحث آئے، یہ ملاقات اس بات کی علامت ہے کہ امارت اسلامی اپنی سفارت کاری کو وسعت دے رہی ہے اور خطے میں ایک متوازن پالیسی اپنانا چاہتی ہے۔

امارت اسلامی افغانستان کی سفارت کاری، خاص طور پر ہندوستان جیسے بڑے ملک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش، ایک قابلِ تعریف حکمت عملی ہے۔ امارت اسلامی نے یہ سمجھ لیا ہے کہ صرف ایک یا دو ممالک پر انحصار کرنا سود مند نہیں بلکہ ایک وسیع اور متنوع خارجہ پالیسی ہی افغانستان کے مفادات کو بہتر طور پر تحفظ دے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف چین اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات بنا رہے ہیں بلکہ خلیجی ممالک، ایران اور ہندوستان کے ساتھ بھی اپنے روابط کو فروغ دے رہے ہیں۔

اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے کہ اگر وہ اپنی خارجہ پالیسی کو زمینی حقائق کے مطابق نہیں ڈھالتا اور اپنے روایتی متکبر رویے کو برقرار رکھتا ہے، تو افغانستان میں اس کا اثر مزید کم ہو جائے گا۔ امارت اسلامی کو دباؤ میں لانے یا ان پر سختی برتنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، بلکہ یہ تعلقات مزید خراب کرنے کا باعث بنیں گے، اسلام آباد کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور اسے اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

ہندوستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کا مطلب یہ نہیں کہ یہ پاکستان کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہیں، بلکہ اس کا مقصد خطے میں استحکام اور ترقی کو فروغ دینا ہے۔ اگر پاکستان اس حقیقت کو قبول کرلے اور اپنی پالیسیوں میں لچک لائے تو وہ بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تاہم اگر وہ اپنی پرانی روش پر قائم رہا اور افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی کو دشمنی کے زاویے سے دیکھتا رہا، تو اس کا نقصان خود پاکستان کو ہی ہوگا۔

دبئی میں ہونے والی ملاقات ایک نئی شروعات کا اشارہ ہے۔ اگر یہ مذاکرات مثبت سمت میں آگے بڑھتے ہیں، تو افغانستان اور ہندوستان کے درمیان نہ صرف اقتصادی تعلقات مضبوط ہوں گے، بلکہ یہ خطے میں سفارتی اور اسٹریٹیجک توازن کے لیے بھی اہم ثابت ہوں گے۔ امارت اسلامی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات کو بہتر انداز میں چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں افغانستان ایک اہم علاقائی کھلاڑی کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

Author

Exit mobile version