احسان اللہ احسان
۲۲ مارچ ۲۰۲۴ء کو فارن پالیسی میں” القاعدہ واپس آچکی ہے اور افغانستان میں پروان چڑھ رہی ہے” کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی اور انہیں سپورٹ فراہم کرنے کے حوالے سے کئی بے بنیاد دعوے کئے گئے ہیں۔
فارن پالیسی کی رپورٹ کے مندرجات پر کچھ کہنے سے پہلے اس رپورٹ کو مرتب کرنے والی لین او ڈونل (Lynne O’Donnell) کی متنازع شخصیت اور اس کے کردار پر بات کرتے ہیں۔
لین او ڈونل ( Lynne O’Donnell )کون ہے؟
لین او ڈونل ایک آسٹریلوی خاتون صحافی ہے جو تقریبا دو دہائیوں تک افغانستان میں بظاہر اپنی صحافتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی مگر اس کے کام کو دیکھتے ہوئے اس کی مجاہدین اور اسلام سے نفرت عیاں ہوتی ہے، اس کے زیادہ تر رپورٹس مفروضوں اور خیالات پر مبنی ہوتی ہیں۔
مذکورہ خاتون صحافی کو صحافتی حلقے بھی سنجیدہ نہیں لیتے اور اس کے ماضی اور افغانستان سے متعلق منفی نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے کسی دعوی کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا۔
۲۰۲۲ء کو اس کے غیر سنجیدہ رویے اور جھوٹی رپورٹنگ کی بنیاد پر امارت اسلامی نے اسے افغانستان میں داخل ہونے پر مختصر وقت کے لیے حراست میں لے کر اس سے تحقیقات بھی کی تھی اور اسے صحافتی اقدار پر عمل درآمد کی تلقین بھی کی تھی، جس کے بعد اس نے افغانستان سے نکل کر امارت اسلامی پر جھوٹے الزامات لگائے کہ اسے ڈرایا دھمکایا گیا اور اسے اپنی رپورٹس یا ارٹیکل کے خلاف ٹویٹس کرنے کا بھی کہا گیا۔ ان الزامات کو امارت اسلامی کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ کہہ رد کر دیا کہ "اس کی جانب سے موجودہ حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت کی کھلی حمایت کی وجہ سے” اور "بڑے پیمانے پر قانون کی خلاف ورزیوں اور جھوٹی رپورٹس” کی وجہ سے ان سے پوچھ گچھ کی گئی” بیان میں مزید کہا گیا کہ او ڈونل نے افغانستان میں اپنی موجودگی کے بارے میں جھوٹ بولا، لیکن حکام نے انہیں پیشکش کی کہ اگر وہ "اپنی رپورٹ میں کسی بھی دعوے کو ثابت کرنے” کے لیے ثبوت پیش کر سکتی ہے تو پیش کردے۔”
فارن پالیسی میں اس خاتون صحافی کی اس تازہ رپورٹ سے اس کا بغض اور نفرت ظاہر ہو رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ جھوٹ کا سہارا لے کر اور تمام صحافتی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے انتقام لینے کی کوشش کر رہی ہے، امارت اسلامی افغانستان کی اس سے افغانستان میں موجودگی کے حوالے غلط بیانی اور اس کی جھوٹی رپورٹس پر وضاحت طلب کرنے کی واقع کے اثر سے ابھی تک نکل نہیں پائی ہے۔
فارن پالیسی کی رپورٹ کے ذرائع کیا ہیں؟
کسی بھی دعوی کو سچا ثابت کرنے کے لیے مضبوط دلائل کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی انصاف کا تقاضہ بھی ہے کہ اگر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو آپ کے دلائل مضبوط اور سچے اور آپ جن ذرائع کا حوالہ دے رہے ہیں وہ معتبر اور مستند ہوں۔
اس رپورٹ کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ یہ رپورٹ محض تعصب پر مبنی ایک خیالی کہانی ہے کیونکہ اس رپورٹ میں جن ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے نہ تو ان کا نام لیا گیا ہے اور نہ ان کے معتبر ہونے کے لیے کوئی ثبوت فراہم کیا گیا ہے بلکہ کہا گیا کہ وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
آپ کسی ایسے شخص کو کوٹ کر کے ایک ریاست کے خلاف الزام لگا رہے ہیں جس میں اعتراف کرنے کی اخلاقی جرات بھی نہیں ہے۔
آپ ایک ایسی رپورٹ کی بنیاد پر اپنی رپورٹ مرتب کر رہے ہیں جو آپ کے بقول ابھی تک شائع ہی نہیں ہوئی اور آپ تک اس کی کاپی فراہم کی گئی ہے، آپ کے ماضی اور متنازع شخصیت کو دیکھتے ہوئے آپ کے اس دعوے پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟
اس غیر سنجیدہ رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رپورٹ ایک متعصب شخصیت کے بغض پر مبنی خیالات کے سوا اور کچھ نہیں۔
فارن پالیسی کی رپورٹ میں کیا ہے؟
لین او ڈونل کی مرتب کردہ اس رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ القاعدہ افغانستان میں دوبارہ پروان چڑھ رہی ہے اور یہ کہ طالبان انہیں مالی اور سیاسی سپورٹ فراہم کر رہے ہیں اور یہ کہ القاعدہ کو افغانستان کی قدرتی وسائل تک رسائی دی گئی ہے اور وہ وہاں سے اپنی ضروریات پوری کر رہی ہے۔
مگر اس رپورٹ میں کئے گئے دعووں کو خود امریکی حکام نے بھی کئی مرتبہ رد کیا ہے اور کہا ہے کہ القاعدہ افغانستان میں اب بڑے خطرے کے طور پر موجود نہیں ہے۔
چند دن قبل امریکی انٹیلی جنس کے سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ القاعدہ کے پاس افغانستان میں کارروائیاں کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اسی طرح امریکہ کے نمائندہ خصوصی ٹام ویسٹ نے بھی گزشتہ دنوں کہا تھا کہ القاعدہ اب افغانستان میں خطرہ نہیں ہے، اس کے علاوہ ۱۱ ستمبر ۲۰۲۳ء کو امریکہ کے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر کی ڈائریکٹر کرسٹین ابی زید نے افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کے حوالے سے کہا تھا کہ القاعدہ افغانستان میں تاریخی طور پر کمزور ہوگئی ہے اور اب اس کی دوبارہ بحالی ممکن نہیں ہے۔
امریکی حکام کے ان حالیہ اعترافات کے باوجود القاعدہ کے حوالے سے فارن پالیسی اور اس کی متنازع صحافی کے دعوے اس کی تحقیق اور صحافتی قابلیت پر سوالیہ نشان کھڑے کر رہے ہیں۔
یہ بات ایک حقیقت ہے کہ القاعدہ نے امارت اسلامی کے قیام پر خوشی کا اظہار کیا تھا مگر ساتھ ہی انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا تھا کہ وہ دنیا کے ساتھ امارت اسلامی افغانستان کے کمٹمنٹ کا پورا خیال رکھیں گے تاکہ امارت اسلامی کو سیاسی مشکلات سے بچایا جا سکے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ افغانستان میں امارت اسلامی قائم ہوچکی ہے اس لیے القاعدہ کا افغانستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اور معلومات یہی ہے کہ القاعدہ کی سرگرمیاں اور توجہ اب مکمل طور پر جزیرہ عرب پر مرکوز ہے۔
افغانستان کی حکومت بڑی مشکل سے اپنی معیشت سنبھال رہی ہے وہ بھلا کسی اور کو اپنے قدرتی وسائل کیوں دے گی؟ دوسری بات یہ کہ اس وقت تمام جہادی تنظیموں میں القاعدہ مالی اعتبار سے سب سے زیادہ مستحکم ہے انہیں کسی اور کی مدد کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے مجاہدین اپنے ممالک واپس لوٹ چکے ہیں اور وہاں پر اپنی جہادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ القاعدہ برصغیر کے مجاہدین برپاکستان کے شہروں اور پہاڑوں میں اپنے ٹھکانوں میں موجود ہیں لیکن ماضی قریب میں ان کی کسی ایکٹیویٹی یا کارروائی کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔