القدس؛ اُمت کا زخمی دل | آٹھویں قسط

ابو ہاجر الکردی

جب القدس کو اپنی حقیقی حیثیت اور مقام حاصل ہوا:

۱۵ ہجری کو صلح کا معاہدہ طے پایا، جس کے تحت القدس بغیر کسی جنگ اور خونریزی کے، عادل خلیفہ کی قیادت میں اسلام کے مبارک دین ک آغوش میں آ گیا۔ شہر کے باشندوں نے امن، سکون اور خوشی میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا اور القدس نے اپنی کھوئی ہوا عزت اور مقام دوبارہ حاصل کیا، بیت المقدس نے رب العالمین کی عبادت کے لیے اپنا اصلی مقام پایا، یہ شہر دو منحرف قوموں کی لڑائیوں اور حملوں کی وجہ سے پوری تاریخ میں مرکز جنگ وجدل بنا رہا تھا، اب اس نے اور اس کے باسیوں نے آرام کی سانس لی اور یہاں فخر و عظمت کے ساتھ ساتھ تاریخی امن و امان کی صورت پیدا ہوئی۔

وقت گزرتا گیا، القدس اور اس کے باشندے اسلام کے عدل و انصاف کی برکتوں سے محظوظ ہوتے رہے، اور دشمنان اسلام کی سازشیں اور اس پر دوبارہ سے قبضہ کرنے کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ یورپ کے مسیحی سینکڑوں سال تک کمین میں بیٹھے رہے اور غصے میں تھے کہ مسلمانوں نے ان کے مشرقی علاقے قبضے میں لے لیے تھے، حتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی جگہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کی حکمرانی میں آگئی تھی۔

یہ امر ان شریر الطبع لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے کافی تھی، لیکن اسلامی سلطنتوں کی طاقت اور ترقی کی بدولت مسیحیوں کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ مسلمانوں کی سرزمین کی طرف میلی نظر سے دیکھیں۔

صلیبی جنگوں کا آغاز:

جب سلجوقی سلطنت خواجہ نظام الملک کی شہادت اور اندرونی جنگوں کی وجہ سے 1098 ء میں کمزور ہوگئی، تو فاطمیوں (عبیدیوں) نے القدس پر حملہ کیا، ہزاروں افراد کو قتل کیا اور افتخار الدولہ کے نام سے ایک رہنما کو شہر کا حکمران بنا دیا۔

فاطمیوں نے اس قبر کی توہین کی جسے مسیحی عیسیٰ علیہ السلام کی قبر سمجھتے تھے، مسیحیوں کو القدس کی زیارت سے روک دیا اور قیامت نامی گرجا گھر کو تباہ کردیا، وہ مسیحی زائرین جو القدس سے یورپ واپس جاتے، فاطمیوں کے مظالم کے قصے دیگر لوگوں کو سناتے تھے، جس سے یورپ کے مسیحی بہت غصے میں آگئے، اور اس طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا۔

القدس صرف فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری دنیا کا ہے، یہ شہر مشرق اور مغرب کے تمام مسلمانوں کے لیے ہے اور قیامت تک تمام مسلمانوں کی ملکیت رہے گا، جیسے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ صرف سعودی عرب کی ملکیت ہیں اور دوسرے مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے 853 ھ میں بیت المقدس کو آزاد کرنے کا شرف عطا کیا، جس نے صلیبیوں کے 90 سالہ قبضے کا خاتمہ کیا، نہ فلسطینی تھا، نہ عرب، بلکہ ایک مسلمان، ہیرو، کردوں میں سے ایک عجمی تھا، جس کا نام صلاح الدین ایوبی تھا، جزاہ اللہ عن المسلمین۔

اسی لئے تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ اور فلسطینی سرزمین کا دفاع کریں، کیونکہ مسلمانوں کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے کہ جب کبھی اسلامی سرزمین پر حملہ کیا جائے یا ایک بالشت زمین پر کفار قبضہ کرلیں، تو اس علاقے کے لوگوں اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے لوگوں پر جهاد فرض ہوجاتا ہے۔ اگر وہ اس فرض کو ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں یا اس میں سستی اور غفلت برتیں، تو فرض کا دائرہ قریبی علاقوں سے شروع ہوکر مشرق اور مغرب کے تمام مسلمانوں تک پھیل جاتا ہے۔

شہید شیخ ڈاکٹر عبداللہ عزام رحمہ اللہ اپنے کتاب ’’فتاوی جهاد‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’خلفاء اور سلف صالحین، چاروں مذاہب کے فقہاء، محدثین اور مفسرین نے تمام اسلامی ادوار میں اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایسی صورتحال میں جهاد اس شہر کے رہائشیوں پر فرض ہے جس پر حملہ کیا گیا ہو اور ان کے ہمسایہ علاقوں کے لوگوں پر بھی فرض ہے۔ اس طرح کہ بیٹا اپنے والد کی اجازت، بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر جهاد کے لیے نکلیں۔

اگر اس شہر کے لوگ مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہ ہوں یا اس میں سستی کریں، تو فرض عین قریب کے علاقوں سے شروع ہوکر ارد گرد کے علاقوں اور اس طرح بالترتیب اس کا دائرہ پھیلتا جائے گا۔ اگر پھر بھی قریب کے علاقے اس کام کے لیے کافی نہ ہوں یا وہ بھی غفلت کریں، تو جهاد کا یہ دائرہ مزید پھیلتا ہے اور آخرکار تمام دنیا کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس سرزمین کو بازیاب کرائیں۔‘‘

مسلمانوں کی کمزوری، سستی و غفلت:

مسلمانوں کو کمزوری دکھانے سے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے صراحتاً منع فرمایا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:

[فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ].

"کمزوری نہ دکھاؤ اور کفار کو امن کی طرف بلانے کی کوشش نہ کرو، کیونکہ تم ہی غالب ہو، اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کا اجر کم نہیں کرے گا۔”

یہ کمزوری، بے بسی اور دشمن کی طرف محبت اور دوستی کا ہاتھ بڑھانا دنیا کی محبت، مقام کی خواہش اور موت سے فرار کی علامت ہے۔ جب سے قومی، مادی اور سیاسی جنگوں کا آغاز ہوا اور اسلامی جہاد کی جگہ ان جنگوں نے لے لی، دنیا جهاد کے برکات اور ثمرات سے محروم ہوگئی، مسلمانوں نے اپنی عزت و کرامت کھو دی۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی جو آپ نے فرمائی تھی:

’’یوشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَیِ الْأَکَلَةُ إِلَی قَصْعَتِهَا، فَقَالَ قَائِلُ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ، وَلَکِنَّکُمْ غُثَاءُ کَغُثَاءِ السَّیْلِ، وَلَیَنْزِعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمُ الْمَهَابَةَ مِنْکُمْ، وَلَیَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَهْنَ، فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْیَا، وَکَرَاهِیَةُ الْمَوْتِ.‘‘

ترجمہ: "جلد ہی (کفار کی) قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے والے اپنے کھانے کی طرف ٹوٹ پڑتے ہیں۔” صحابہ کرام نے سوال کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا اس وقت ہم کم ہوں گے؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، اُس وقت تم لوگ بہت زیادہ ہو گے، تم (کثرت و عدم منفعت میں) سیلاب کے جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں (وهن) ڈال دے گا۔”

صحابہ کرام نے سوال کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وهن کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: "دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔”

جب مسلمان اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انحراف کرتے ہیں، تو اسلام کے دشمن اور کافر ان پر غالب آجاتے ہیں، کیونکہ مسلمانوں کی کامیابی، عزت، دولت اور طاقت صرف اللہ جل جلالہ کی اطاعت سے وابستہ ہیں۔

آج کا سب سے افسوسناک واقعہ صہیونی یہودیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہے؛ وہ شہر جس میں مسلمانوں کی تین مقدس مساجد میں سے ایک وہاں موجود ہے، جو قبلہ اول ہے اور جہاں بہت سے انبیاء علیہم السلام نے زندگی بسر کی، کروڑوں مسلمانوں اور عربوں کی موجودگی میں یہودیوں کی جانب سے مسجد اقصی والقدس پر قبضہ اور اس کی آئے دن بے حرمتی، یہودیوں کی حکمرانی، سب کچھ ہوتے ہوئے مسلمانوں کی کمزوری اور غفلت؛ یہ مسلمانوں کے اعمال کی سزا ہے۔ مسلمانوں کا مسئلہ صرف اس صورت میں حل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے برے اعمال سے سچی توبہ کریں، اللہ جل جلالہ کی طرف رجوع کریں، اس کی اطاعت کریں، اللہ تعالیٰ پر توکل کریں، مقدس جہاد کی طرف بھر پور توجہ دیں اور غیروں کی سیاست اور معاشرت پر یقین چھوڑ دیں۔ ان شاء اللہ، بیت المقدس اور فلسطین کی سرزمین واپس ہمارے ہاتھوں میں آ جائے گی۔

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ اسلامی ممالک کے حکام اور مسلمان ابھی تک اس حقیقت سے غافل ہیں، وہ ابھی تک دوسروں کی مدد کی امید رکھتے ہیں اور بیت المقدس کی واپسی کے لیے ایسے منصوبے بنا رہے ہیں جو ظاہری طور پر کسی عملی نتیجے پر منتج نہیں ہوسکتے۔

"فالی اللہ المشتکی۔”

Author

Exit mobile version