القدس؛ اُمت کا زخمی دل | چھٹی قسط

ابو ہاجر الکردی

القدس اسلامی دور میں:

۶۲۷عیسوی میں رومی قیصر ہرقل نے اس وقت کے ایرانی مشرک و مجوسیوں کو القدس سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی، جیسا کہ قرآن مجید میں پیشگوئی کی گئی تھی:

[غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ]

"رومی (ایرانیوں کے مقابلے میں) قریب ترین زمین میں شکست کھا گئے، اور اپنی شکست کے بعد وہ چند سالوں میں غالب آئیں گے۔”

یہ پیشگوئی مسلمانوں کے لیے خوشخبری تھی کیونکہ وہ اہل کتاب کو مشرکوں پر ترجیح دیتے تھے۔ مزید برآں، پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خوشخبری دی تھی کہ:

«إِنَّ الشَّامَ سَتُفْتَحُ إِنْ شَاءَ اللهُ، وبَيْتُ المَقْدِسِ سَتُفْتَحُ إِنْ شَاءَ اللهُ»

’’بیت المقدس جلد مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہو گا‘‘۔

یہ خوشی اُس وقت مکمل ہوئی جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، جو کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے خلیفہ تھے، نے (۱۶ہجری قمری موافق ۶۲۷ عیسوی) بیت المقدس کو فتح کیا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے شام کے اہم شہروں کو فتح کرنے کے بعد قیساریہ اور بیت المقدس کی طرف رخ کیا، اور آخرکار قدس کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔

اسلام کے بہادر سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بھی حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیت المقدس کے محاصرے میں شریک ہوئے۔ یہ محاصرہ طویل ہوگیا، اور آخرکار عیسائیوں نے صلح کی پیشکش کی، اس شرط پر کہ عالم اسلام کے خلیفہ کو خود آنا ہوگا اور صلح کا معاہدہ کرنا ہوگا، اور مسجد الاقصی کی چابیاں ان کے حوالے کی جائیں گی۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک خط بھیجا، جس میں لکھا گیا تھا کہ بیت المقدس کی فتح مسیحیوں کی درخواست پر خلیفہ کے آنے تک مؤخر کی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً مدینہ منورہ میں مشاورتی کابینہ تشکیل دی اور مشورہ شروع کیا، ہر مشیر نے اپنی رائے پیش کی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا:’’چونکہ عیسائیوں کو بہت زیادہ خوف ہے، وہ صلح کی درخواست کر رہے ہیں، اگر ان کو مثبت جواب نہ دیا گیا تو وہ ذلیل و خوار ہو جائیں گے۔‘‘

پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی باری آئی، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے، نے واضح طور پر کہا: ’’اے امیر المؤمنین! بیت المقدس کی چابیاں حاصل کرنا ایک تاریخی اعزاز ہے، جو صرف آپ کے شایان شان ہے۔‘‘

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ، خاص طور پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ القدس روانہ ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے نائب کے طور پر منتخب کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوسرے افراد پر ترجیح دیتے تھے۔ جب بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام یا دوسرے علاقوں کا سفر کرتے، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر کرتے تھے۔ اس طرح کل ۱۲ مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو اپنا نائب منتخب کیا۔

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جابیہ علاقے میں پہنچے، تو انہوں نے خود ہی صلح کا معاہدہ لکھا اور اس پر دستخط کیے۔ اسلام کے عظیم سپہ سالاروں جیسے حضرت خالد بن ولید، حضرت ابو عبیدہ بن جراح، حضرت عمرو بن الالعاص اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کو اس معاہدے کا گواہ بنایا۔ پھر یہ معاہدہ اسقف اعظم صفر نیوس کے ساتھ دستخط کیا گیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے القدس کے باشندوں کے ساتھ کیے گئے صلح کے معاہدے کا متن:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

’’ یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر نے ایلیاء کے لوگوں کو دی ،یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے؛ اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی، نہ وہ ڈھائے جائیں گےنہ ان کو اورنہ ان کے احاطہ کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا،نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی، مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا، نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا، ایلیاء میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے، ایلیاء والوں پر یہ فرض ہے کہ دیگر شہروں کی طرح جزیہ دیں۔

وہ رومی جو القدس میں ہیں، وہ آزادانہ طور پر اس شہر سے باہر اپنے ملک واپس جا سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ کسی محفوظ جگہ تک پہنچ جائیں، وہ اور ان کے مال محفوظ رہیں گے۔ جو بھی یہاں رہنا چاہے اور شہر کے لوگوں کی طرح حقوق حاصل کرنا چاہے، اسے جزیہ ادا کرنا ہوگا۔ ایلیاء کے لوگ حق رکھتے ہیں کہ وہ رومیوں کے ساتھ جا سکتے ہیں، اور وہ بھی جب تک کسی محفوظ جگہ تک نہ پہنچ جائیں، محفوظ رہیں گے۔

جو لوگ دوسرے علاقوں سے ایلیاء آئے اور یہاں مقیم ہوئے، ان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے علاقے واپس جا سکتے ہیں یا یہاں رہ سکتے ہیں اور جیسے شہر کے دیگر لوگ جزیہ ادا کرتے ہیں، ویسا ہی کریں۔ جزیہ کے علاوہ ان سے کچھ نہیں لیا جائے گا، مگر جب ان کی زرعی پیداوار حاصل کی جائے گی، تو انہیں اپنی زمین سے حاصل ہونے والا خراج اسلامی حکومت کو دینا ہوگا‘‘۔

یہ معاہدہ ذاتی طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مہر، دستخط اور تحریر کیا گیا تھا اور بعد میں دیگر افراد نے بھی اس پر دستخط کیے۔

Author

Exit mobile version