مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی مدد اور تعاون، یا اصطلاحاً "مظاہرۃ علی المسلمین” کے بارے میں اہل السنہ والجماعة کے سلفی علماء اورائمہ کرام کے اقوال اور مؤقف:
امام اہل السنۃ ابو منصورالماتریدی رحمہ اللہ:
امام ابو منصور الماتریدی رحمہ اللہ جو اہل السنۃ کے بڑے امام اور فقیہ تھے، اپنی تفسیر تأویلات اہل السنۃ کی نویں جلد، صفحہ ۶۰۸ پر آیت ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾ کے تحت فرماتے ہیں:
وفي هذه الآية دلالة أن ذلك الذنب الذي ارتكبه ذلك الرجل لم يخرجه من الولاية.
ترجمہ: اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ گناہ (کافروں کی مدد یا جاسوسی) جو اس شخص نے کیا، اس نے اسے مؤمنوں کی ولایت سے خارج نہیں کیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾ میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔ اب اگر اس گناہ کی وجہ سے اس شخص کو کافر قرار دیا جا سکتا یا اسے دائرہ اسلام سے نکالا جا سکتا، تو یہ کافر اس کا دشمن نہ ہوتا، بلکہ وہ کافر اس کا دوست ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ﴾ اسی لیے اللہ جل جلالہ نے﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا﴾ فرماکر اس شخص کو مؤمن کہا اور اسے مؤمن کا خطاب دیا ہے۔
والدليل على أن ذلك الذنب كان كبيرة: أنه أخبرهم بأن رسول اللَّه – صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ – جهزهم للقتال، وفيما أخبر: أمر بأن يستعدوا لقتال النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ – وحربه. ولا يشكل أن من أمر بقتال رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ – كان مرتكب كبيرة، وإذا كان كذلك، وقد أحله اللَّه – تعالى – في جملة المؤمنين بقوله: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ﴾ وبما وصفناه من الدليل – ثبت أن الكبيرة لا تكفره، ولا تغير اسم الإيمان عنه.
ترجمہ: اب اس بات کی دلیل کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے جو گناہ کیا تھا وہ کبیرہ گناہ تھا، یہ ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے خود اس بات میں (مشرکوں کو اطلاع دی کہ نبی علیہ السلام جنگ کی تیاری کر رہے ہیں، اور آپ پر حملہ کریں گے) مشرکوں کو حکم دیا کہ وہ نبی علیہ السلام کے خلاف جنگ کی تیاری کریں۔ یہ بات بالکل واضح ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں؛ اگر کوئی شخص اللہ کے رسول کے خلاف جنگ اور قتال کا حکم دے، تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتاہے نہ کہ کفرکا۔ اسی وجہ سے اللہ جل جلالہ نے اسے مؤمنوں کی جماعت میں شمار کیا، اپنے اس فرمان کے ذریعے: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ﴾۔ اور جو دلیل ہم نے بیان کی، اس سے ثابت ہوا کہ مرتکبِ گناہ کبیرہ کافر نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتاہے۔(تفسیر الماتریدی، جلد نهم ، صفحہ: ۶۰۸)
امام محمد رحمه الله:
امام محمد رحمه الله شرحِ سِیَرکبیر کی دوسری جلد صفحہ ۱۴۴ میں فرماتے ہیں:
وَلَوْ قَتَلَ مُسْلِمًا كَانَ فِي صَفِّ الْمُشْرِكِينَ يُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ مَعَهُمْ لَمْ يَكُنْ لَهُ سَلَبُهُ؛ لِأَنَّ هَذَا وَإِنْ كَانَ مُبَاحَ الْقَتْلِ، وَلَكِنَّ سَلَبَهُ لَيْسَ بِغَنِيمَةٍ؛ لِأَنَّهُ مَالُ الْمُسْلِمِ، وَمَالُ الْمُسْلِمِ لَا يَكُونُ غَنِيمَةً لِلْمُسْلِمِينَ بِحَالٍ، كَأَمْوَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ.
فَإِنْ كَانَ السَّلَبُ الَّذِي عَلَيْهِ لِلْمُشْرِكِينَ أَعَارُوهُ إيَّاهُ فَذَلِكَ لِلَّذِي قَتَلَهُ؛ لِأَنَّ مَا عَلَيْهِ مِنَ السَّلَبِ غَنِيمَةٌ. وَهُوَ مُبَاحُ الْقَتْلِ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ، فَيَدْخُلُ فِي تَحْرِيضِ الْإِمَامِ عَلَيْهِ.
ترجمہ: اگرکوئی مسلمان مجاہد کافروں کی صف میں ایسا مسلمان قتل کرے جو کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا ہو، تو اس کا سامان (یعنی اس کا مال اور اسلحہ) اس قاتل مجاہد کے لیے حلال نہیں ہوتا، کیونکہ وہ مسلمان جو کافروں کے ساتھ ہے، مباح الدم ہے یعنی اس کا قتل جائز ہے کیونکہ وہ کافروں کے ساتھ ہے، لیکن اس کا سامان غنیمت نہیں بن سکتا، کیونکہ وہ مسلمان ہے، کافر نہیں؛ اس لیے یہ اس کا مال ہے اور مسلمان کا مال کسی بھی حالت میں غنیمت نہیں بن سکتا۔ یہ اسی طرح ہے جیسے باغیوں کا مال؛ ہاں اگر یہ سامان کافروں کا ہو اور انہوں نے وہ مسلمان کو عاریتاً دیا ہو تو وہ سامان پھر اس شخص کے لیے ہے جس نے اس مسلمان کو قتل کیا ہو، کیونکہ وہ سامان جو اس کے پاس تھا اس صورت میں غنیمت قرار پاتا ہے اور یہ مباح الدم مسلمان جو کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا ہے اور اسلحہ اس نے کافروں سے عاریتاً لیا ہے، امام کے حکم کے تحت اس میں داخل ہوتا ہے۔
علامه شامی رحمه الله:
اسی طرح علامہ شامی رحمه الله رد المحتار کی چوتھی جلد صفحہ ۱۵۴ میں فرماتے ہیں:
نَعَمْ لَوْ قَتَلَ مُسْلِمًا كَانَ يُقَاتِلُ فِي صَفِّهِمْ لَمْ يَكُنْ لَهُ سَلَبُهُ؛ لِأَنَّهُ وَإِنْ كَانَ مُبَاحَ الدَّمِ لَكِنَّ سَلَبَهُ لَيْسَ بِغَنِيمَةٍ كَأَهْلِ الْبَغْيِ إلَّا إذَا كَانَ سَلَبُهُ لِلْمُشْرِكِينَ أَعَارُوهُ إيَّاهُ.
ترجمہ: اگر یہ مجاہد ایسا مسلمان قتل کرے جو کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف ان کی صف میں لڑ رہا ہو، تو اس کا سامان (سلب) اس مجاہد کے لیے جائز نہیں ہے، اگرچہ وہ مسلمان (کافروں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی وجہ سے) مباح الدم ہے، لیکن اس سامان کا حکم باغیوں کے مال کی طرح ہے، یعنی یہ غنیمت نہیں بن سکتا؛ کیونکہ غنیمت وہ مال ہوتا ہے جو کافروں سے لیا جائے اور یہ مسلمان جو کافروں کے ساتھ تعاون کرتا ہے، وہ کافر نہیں ہے۔ تاہم، اگر یہ سامان کفار کا ہو اور انہوں نے اس مقتول مسلمان کو عاریتاً دیا ہو، تو پھر یہ سامان غنیمت ہوگا۔
اسی طرح شرح السیرالکبیر کی پہلی جلد صفحہ ۳۰۵ پر ذکر ہے:
اگر کوئی جنگی قیدی امان لے کر دارالاسلام میں داخل ہو اور پھر وہاں کسی مسلمان کو عمدًا یا غلطی سے قتل کرے یا چوری کرے یا کسی مسلمان یا ذمی کے ساتھ جبرًا زنا کرے، یا راستہ روک کر ڈاکہ ڈالے یا کافروں کے لیے جاسوسی کرے، تو اس سے اس کا عہد نہیں ٹوٹتا اور اس پر دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ اگر مسلمان یہ کام کریں تو یہ ان کے ایمان کو ناقص نہیں کرتا، جیسا کہ فرمایا:
وَإِذَا دَخَلَ حَرْبِيٌّ دَارنَا بِأَمَانٍ، فَقَتَلَ مُسْلِمًا عَمْدًا أَوْ خَطَأً، أَوْ قَطَعَ الطَّرِيقَ، أَوْ تَجَسَّسَ أَخْبَارَ الْمُسْلِمِينَ فَبَعَثَ بِهَا إلَى الْمُشْرِكِينَ، أَوْ زَنَى بِمُسْلِمَةٍ أَوْ ذِمِّيَّةٍ كُرْهًا، أَوْ سَرَقَ، فَلَيْسَ يَكُونُ شَيْءٌ مِنْهَا نَقْضًا مِنْهُ لِلْعَهْدِ. إلَّا عَلَى قَوْلِ مَالِكٍ، فَإِنَّهُ يَقُولُ: يَصِيرُ نَاقِضًا لِلْعَهْدِ بِمَا صَنَعَ؛ لِأَنَّهُ حِينَ دَخَلَ إلَيْنَا بِأَمَانٍ فَقَدْ الْتَزَمَ بِأَنْ لَا يَفْعَلَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَإِذَا فَعَلَهُ كَانَ نَاقِضًا لِلْعَهْدِ بِمُبَاشَرَتِهِ، مِمَّا يُخَالِفُ مُوجِبَ عَقْدِهِ، وَلَوْ لَمْ يَجْعَلْهُ نَاقِضَ الْعَهْدِ بِهَذَا رَجَعَ إلَى الِاسْتِخْفَافِ بِالْمُسْلِمِينَ. وَلَكِنَّا نَقُولُ: لَوْ فَعَلَ الْمُسْلِمُ شَيْئًا مِنْ هَذَا لَيْسَ بِنَاقِضٍ لِإِيمَانِهِ، فَإِذَا فَعَلَهُ الْمُسْتَأْمَنُ لَا يَكُونُ نَاقِضًا لِأَمَانِهِ.
وَالْأَصْلُ فِيهِ حَدِيثُ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ، فَإِنَّهُ كَتَبَ إلَى أَهْلِ مَكَّةَ أَنَّ مُحَمَّدًا يَغْزُوكُمْ فَخُذُوا حِذْرَكُمْ. وَلِذَلِكَ قِصَّةٌ. وَفِيهِ نَزَلَ قَوْله تَعَالَى: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ﴾ [الممتحنة: 1]
فَقَدْ سَمَّاهُ اللَّهُ تَعَالَى مُؤْمِنًا مَعَ مَا فَعَلَهُ. وَكَذَلِكَ أَبُو لُبَابَةَ بْنُ عَبْدِ الْمُنْذِرِ حِين اسْتَشَارَهُ بَنُو قُرَيْظَةَ أَنَّهُمْ إنْ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَاذَا يَصْنَعُ بِهِمْ؟ فَأَمَرَّ يَدَهُ عَلَى حَلْقِهِ، يُخْبِرُهُمْ أَنَّهُ يَضْرِبُ أَعْنَاقَهُمْ. وَفِيهِ نَزَلَ قَوْله تَعَالَى: ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ﴾ [الأنفال: 27] الْآيَةُ.
فَعَرَفْنَا أَنَّ هَذَا لَا يَكُونُ نَقْضًا لِلْإِيمَانِ مِنْ الْمُسْلِمِ، فَكَذَلِكَ لَا يَكُونُ نَقْضًا لِلْأَمَانِ مِنْ الْمُسْتَأْمَنِ، وَلَكِنَّهُ إنْ قَتَلَ إنْسَانًا عَمْدًا يُقْتَلُ بِهِ قِصَاصًا؛ لِأَنَّهُ الْتَزَمَ حُقُوقَ الْعِبَادِ فِيمَا يَرْجِعُ إلَى الْمُعَامَلَاتِ.
تو یہاں بھی یہ واضح ہے کہ اگر کوئی مسلمان کافروں کے لیے جاسوسی کرتا ہے یہ ان کے ساتھ مدد اور تعاون (مناصرۃ و مظاہرۃ) کی ایک اہم صورت ہے، تو یہ مدد اور تعاون ایمان کے منافی نہیں ہے۔