جمہوریت مغربی دنیا کی ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے، جسے اپنی کامیابی اور فخر کے طور پر پسماندہ ممالک خاص طور پر اسلامی ممالک کو پیش کرتے ہیں، تاکہ ان کے نفاذ کے ذریعے وہ عالمی قانونی حیثیت اور ایک معنوی امتیاز حاصل کریں، لیکن بدقسمتی سے مغرب نے قرونِ وسطی میں روا رکھے جانے والے اپنے وہ ہزار سالہ مظالم بھلا دیے ہیں، جنہیں یاد کرتے ہی آج بھی انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے۔
جب مغربی باشندے ان گھٹاٹوپ تاریکیوں میں زندگی بسر کر رہے تھے، اسلامی مشرقی ممالک علمی و معنوی ترقی، تمدن اور سائنسی اختراعات کی بلندیوں پر تھے، یہاں تک کہ اندلس میں پہلی بار یونیورسٹیاں، مدارس، کتب خانے اور علمی مباحثوں کی مجالس قائم کی گئیں، جن کے ذریعے یورپ کے بیچوں بیچ علم اور ثقافت کی روشنی پھیلی اور یورپیوں کو غفلت و جہالت کی نیند سے جگایا۔
جمہوریت یا جمہوری نظام کے مطابق، عوام کو حکومت کرنے کا اختیار ہونا چاہیے، جہاں اکثریت کو اہمیت دی جاتی ہے، لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اکثریت میں کون سی خصوصیات ہونی چاہئیں اور انتخاب کا طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ بس جو بھی طریقہ اپنایا جائے، جس طرح سے بھی عوام کے ووٹ حاصل کیے جائیں، اس کے نتیجے میں جس نے بھی ۵۰ جمع ۱ ووٹ حاصل کیے وہ حکومت کا اہل اور حاکم شمار ہوگا، باقی رہے ۴۹ فیصد عوام تو ان کی اس سسٹم میں کوئی حیثیت نہیں۔
جب ۲۰۰۱ء میں قابض افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، تو اسی مغربی ماڈل کو جمہوریت کے نام سے افغانستان میں بھی متعارف کرایا گیا اور اس وقت انتخابات میں صرف ۸ لاکھ افراد نے حصہ لیا، جو کہ ۳۵ ملین کی آبادی میں بہت کم تعداد تھی اور ان میں سے زیادہ تر ووٹ جعلی تھے؛ اس کے باوجود اس کے نتیجے میں دو جماعتی حکومت تشکیل دی گئی جسے جمہوریت کا نام دیا گیا۔
جمہوریت کے فریب کار دائرے میں ظاہری طور پر خواتین، بچے، انفرادی حقوق کا تحفظ، انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور شہری املاک کے تحفظ کو اہمیت دی جاتی ہے، مگر مشرق وسطیٰ کے حالیہ بحرانوں، خاص طور پر فلسطین کے مظلوم عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم، جن کے پیچھے مغرب اور امریکہ ہیں، جمہوریت کے ان نام نہاد اصولوں کی پاسداری پر سوالیہ نشان ہیں۔
استاد الفت کہتے ہیں کہ جمہوریت ایک ناکارہ درخت ہے اور ناکارہ درخت نہ پھل دیتا ہے اور نہ ہی اس کا سایہ استفادے کے قابل ہوتا ہے، افغانستان میں بھی اسی ناکارے اور مغرب کی حمایت یافتہ جمہوریت نے انسانی حقوق کے نام پر انسان کھلواڑ کیا کہ اس کے ذکر انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔
سب سے بدتر بات یہ تھی کہ اس نے عوام کے درمیان نسلی، لسانی اور علاقائی تعصب کو جنم دیا، اعلیٰ حکومتی عہدے صلاحیت اور اہلیت کی بجائے قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہوئے، حکومتی سربراہ پشتون تھا، اس کے نائب تاجک، ہزارہ یا ازبک تھے اور اس توازن کو ثابت کرنے کے لیے دو دھڑوں والی حکومت یعنی اجرائیہ جیسی مستقل ریاست کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
مختصراً، جمہوریت افغانستان میں اپنی بدترین اور بھیانک شکل میں عوام کے سامنے منظرِ عام پر آئی اور ملک کو بحرانوں کے اتنے گہرے دلدل میں دھکیل دیا کہ اب اس کے بچاؤ کی کوئی امید نہ تھی، جمہوریت کے نام پر حکومتی رہنماء بھی حیران تھے کہ کیا کریں؟ حالانکہ ان کے سامنے معاصر تاریخ میں "خلق جمہوری” کمیونسٹ نظام کا تلخ تجربہ بھی موجود تھا، جس میں ترہ کئی، امین، کارمل اور نجیب نے جمہوریت کے نام پر ملک وملت کو تباہی کی طرف دھکیل دیا اور جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔