او آئی سی کا دوہرا معیار؛ ملالہ کی حمایت، افغان خواتین کے حقوق کے بارے میں تشویش لیکن فلسطین کی حالتِ زار پر خاموشی

اهرام خان

#image_title

21اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی عیسائی ڈینس مائیکل نے بیت المقدس میں مسجد اقصی کے 800 سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی، جس کی لپیٹ میں مسجد اقصیٰ کی چھت بھی آ گئی، اس واقعہ کے بعد پورے عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی؛ اُس وقت کے مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی نے شدید احتجاج کیا اور پورے عالمِ اسلام کو اِس واقعہ پر مضبوط مؤقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔

مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، ان کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے۔ 25 ستمبر 1969ء کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی، اس کے6 ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب نے اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدکیا، 1972ء میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس تنظیم میں وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال ہوگا جبکہ سربراہی اجلاس ہر 3 سال بعد ہوا کرے گا۔

او آئی سی کے منشور میں کہا گیا کہ اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کے فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا۔

لیکن بدقسمتی سے تنظیم نے اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے، ان کی کارکردگی صرف چند اجلاسوں تک ہی محدود رہی ہے۔

فلسطین اور مسجد اقصی کے خلاف ہونے والے ایک اقدام کے رد عمل میں وجود میں آنے والی تنظیم کو اب فلسطین میں ہونے والے مظالم نظر نہیں آتے، وہاں ہونے والی نسل کشی پر انہیں بولنے یا کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی مگر اسلام اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے انہیں اسلامی ممالک میں مداخلت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس تنظیم کی غیر سنجیدگی اور کمزور کردار کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اب ملالہ یوسفزئی جیسی متنازعہ کردار کے حامل افراد بھی اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی اسلام دشمنی کا برملا اظہار کریں گے۔

پاکستان میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شریک ملالہ یوسفزئی ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے مغربی میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کی، انہوں نے ماضی میں اسلام اور اسلامی اقدار کے خلاف ایسے بیانات دئیے جو مسلمان کیا کوئی غیر مسلم بھی ایسا کچھ کہنے سے پہلے کئی دفعہ سوچے گا، ان کا کردار اور بیانات اس بات کا واضح اشارہ دیتے ہیں کہ ملالہ نہ صرف مغربی ایجنڈے کی حمایت کرتی ہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چلنے والی عالمی سازشوں میں بھی شامل ہیں، ان کا مغربی اداروں اور قوتوں کے ساتھ تعلق، ان کی سوچ کو مزید مشکوک بناتا ہے، اور ان کے اسلام مخالف بیانات ان کے مغرب پرستانہ مؤقف و نظریے کی عکاسی کرتے ہیں۔

ملالہ یوسفزئی نے ایک بار پردہ اور برقعے کو ’’زمانہ جاہلیت‘‘ کی علامت قرار دیا، جو کہ ایک انتہائی توہین آمیز بات ہے، مسلمان معاشرے میں پردے کو عزت اور عفت کا نشان سمجھا جاتا ہے اور ملالہ کا یہ بیان صرف اسلامی اقدار کی تضحیک ہی نہیں بلکہ مسلم خواتین کی عزت کا بھی مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

اس کے علاوہ ملالہ نے داڑھی رکھنے کو ’’فرعون‘‘ کا عمل قرار دے کر ایک اور سنگین توہین کی مرتکب ہوئی ہیں۔

داڑھی اسلام میں سنت بلکہ واجب کے درجے میں ہے اور مردوں کے لیے عزت کی علامت ہے، لیکن ملالہ کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو ایک قدیم اور غیر ترقی یافتہ تصور کرتی ہیں، جو حقیقت میں ان کی مغربی سوچ وفکر کی غماز ہیں۔

ملالہ کا مغربی ایجنڈے سے تعلق اس بات کو مزید تقویت دیتا ہے کہ وہ اسلام کے حقیقی اصولوں اور مسلمانوں کی فلاح کے بجائے مغربی مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں، ان کی کتاب ’’میں ملالہ ہوں‘‘ اسلام کی مخالفت اور توہین آمیز عبارتوں سے بھری پڑی ہے؛ بی بی سی جیسے اداروں کے ساتھ ان کا گہرا تعلق اور ان کے اسلام و احکام اسلام مخالف بیانات، یہ سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ ملالہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے بجائے ان کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ پھیلانے کا کام کر رہی ہیں۔

افغان خواتین کے حقوق سے متعلق ان کے بیانات بھی سوالات کو جنم دیتے ہیں کہ اگر ملالہ کو واقعی افغان خواتین کی حالت پر تشویش تھی تو انہیں اسلامی اقدار اور افغان ثقافت کا احترام کرنا چاہیئے تھا جس سے وہ بالکل بے خبر ہے، مغرب کی جانب سے افغان خواتین کو "بازیچے” کے طور پر پیش کرنا اور پھر ملالہ کو ان کے حقوق کا علمبردار باور کروانا، افغان خواتین کی توہین کے مترادف ہے؛ یہ سب کچھ مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد اسلامی ثقافت اور اقدار کو مٹانا ہے۔

ملالہ یوسفزئی کے بارے میں تو سب کو معلوم ہے کہ وہ مشہور ہونے سے پہلے سی آئی اے(CIA) کے ایجنٹس کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کرتی تھی، ان ملاقاتوں کی تصاویر بھی میڈیا پر آچکی ہیں، جن ملاقاتوں کا مقصد مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنا اور اس کام کے لیے منصوبے بنانا تھا۔

او آئی سی جیسے پلیٹ فارم پر ملالہ یوسفزئی کی شرکت مسلمانوں کے مفادات اور عالم اسلام کے لیے ایک ناقابل قبول عمل ہے، او آئی سی کے اجلاس اور کانفرنسوں میں ایسی شخصیات کو مدعو کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، جو اسلام کے بنیادی اصولوں اور اقدار کی توہین کی مرتکب ہوں، ایسے افراد کی حمایت اسلام کے آفاقی حقائق و سچائیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بجائے مغربی مفادات کو فروغ دینے کے سوا کچھ نہیں۔

ملالہ یوسفزئی کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اسلام کی توہین کرنے والی مغرب کی ایک کٹھ پتلی ہیں، جو مسلمانوں کے لیے کسی بھی طرح سے مفید ثابت نہیں ہو سکتیں۔

او آئی سی کا اس طرح کا دوہرا معیار اس کی سیاسی منافقت اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے اس کے کمزور کردار کو ظاہر کرتا ہے۔

جب تک او آئی سی اپنے مؤقف میں تسلسل اور یکسانیت نہیں لاتی اور فلسطین سمیت دیگر اہم مسائل پر بھی اسی شدت سے ردِعمل ظاہر نہیں کرتی، جس طرح آج وہ اسلامی ممالک میں مداخلت کرکے ظاہر کرتی ہے، تب تک عالمی سطح پر اس کے اثر و رسوخ کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

او آئی سی کو نہ صرف افغانستان میں بلکہ فلسطین میں بھی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اور یکساں پالیسی اپنانی ہوگی تاکہ عالم اسلام میں اس کی صداقت اور اہمیت قائم رہ سکے۔

Author

Exit mobile version