پاکستان میں منعقد ہونے والی او آئی سی کانفرنس کو افغان عوام کے حقوق، خواتین کی تعلیم اور انسانی بحران کے تناظر میں پیش کیا جا رہا ہے، مگر اس اجلاس کے اصل محرکات کچھ اور ہیں، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو اپنے زیرِ اثر رکھنے کی کوشش کی ہے، اب جب سے امارت اسلامی افغانستان نے اپنی آزادانہ و خود مختار پالیسی اپنانے کی کوشش کی تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ ناقابلِ قبول ہے۔
او آئی سی کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، ایک ایسا سیاسی حربہ جو دراصل امارت اسلامی افغانستان کو جھکانے اور ان پر دباؤ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان، جو خود انسانی حقوق، آزادی اظہار رائے اور برائے نام جمہوری اقدار کو پامال کرنے میں بدنام ہے، اسے کسی دوسرے ملک کو درس دینے کا حق کس نے دیا؟
کیا افغان بچوں اور بچیوں کو تعلیم کا حق دلانےوالے نام نہاد علمبردار پاکستان نے خود اپنے ملک کے اندر بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کی ہے؟ پاکستانی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 26 ملین سے زائد بچے اسکولوں اور مدارس سے باہر اور محروم ہیں، جو اسکول یا مدارس نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کی ریاست اور خاص طور پر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی ہے، ہر افغان حکومت کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش، سرحدی تنازعات کو ہوا دینا، تجارتی راستے بند کرکے افغانستان کی معیشت کو نقصان پہنچانا، تو کبھی دہشت گردی کے الزامات لگا کر افغان عوام کو عالمی سطح پر بدنام کرنا۔
یہ تمام وہ حربے ہیں جو پاکستان کی افغان پالیسی کا حصہ رہے ہیں، لیکن اب وقت بدل چکا ہے، افغانستان اب کسی بیرونی دباؤ میں آنے کے لیے تیار نہیں اور پاکستان کو بھی یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ اب اپنے پرانے کھیل نہیں کھیل سکتا۔
پاکستان کو اگر واقعی انسانی حقوق اور آزادی کی فکر ہوتی تو سب سے پہلے اسے اپنے ملک میں جاری ظلم و ستم کو روکنا چاہیئے، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے زیرِاثر حکومتیں ہمیشہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کسی نہ کسی بیرونی مسئلے کو اچھالتی آئی ہیں، افغانستان پر تنقید اور دباؤ ڈالنے کی پالیسی بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود پاکستان اس وقت شدید داخلی بحرانوں سے دوچار ہے۔
ملک میں سیاسی انتشار اپنی انتہا پر پہنچ چکا ہے، حالیہ سالوں میں پاکستانی سیاست میں جو کچھ ہوا، وہ پوری دنیا نے دیکھا، ایک منتخب حکومت کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی من پسند پالیسیوں کے تحت ختم کرکے ایسا سیاسی بحران پیدا کیا جو آج تک جاری ہے؛ انتخابات میں کھلی دھاندلی، میڈیا پر پابندیاں اور عدلیہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا، یہ سب وہ اقدامات ہیں جو پاکستان میں نافذ برائے نام جمہوریت کو ایک مذاق بنا چکے ہیں۔
بلوچستان میں ریاستی مظالم کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے، ہزاروں بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتہ کر دیے گئے، سیکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں ویران علاقوں سے ملیں اور جو باقی بچے وہ یا تو جیلوں میں ہیں یا ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، پاکستانی ریاست نے بلوچستان کے عوام کو ہمیشہ باغی اور علیحدگی پسند قرار دے کر ان کے جائز حقوق کو دبایا ہے، وہاں کے عوام کو تعلیم، روزگار اور بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔
جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بلوچستان میں ایک معمول کا حصہ بن چکے ہیں، پاکستان کی فوجی اور خفیہ ایجنسیاں ہر اس شخص کو نشانہ بناتی ہیں جو ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرے؛ اگر پاکستان کو واقعی انسانی حقوق کا اتنا ہی خیال ہوتا تو اسے سب سے پہلے بلوچستان میں جاری مظالم کو روکنا چاہیے تھا، مگر اس کے بجائے ریاست وہاں مزید فوجی آپریشنز کر رہی ہے، مزید لوگوں کو غائب کر رہی ہے اور مزید قتل عام کا ارتکاب کر رہی ہے۔
خیبر پختونخواہ میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں؛ وہاں کی عوام کو برائے نام دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلسل نشانہ بنایا گیا، پاکستانی فوج نے جس انداز میں وہاں آپریشنز کیے، اس میں معصوم شہریوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا، پورے کے پورے گاؤں ملیا میٹ کر دیے گئے، بے گناہ شہریوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کیا گیا اور جو لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے لگے، انہیں غدار اور ملک دشمن قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
پاکستان کو دوسرے ممالک کے انسانی حقوق پر بات کرنے سے پہلے اپنے میڈیا کی حالت دیکھنی چاہیے، یہاں صحافیوں کو کھلے عام اغوا کیا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا کو مکمل طور پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں رکھا گیا ہے اور جو بھی ان کے خلاف بولنے کی کوشش کرتا ہے، اسے یا تو خاموش کرا دیا جاتا ہے یا اسے ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
سال 2023ء میں شائع ہونے والی ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے، آزادیٔ اظہار رائے، اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق اور سیاسی آزادیوں میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے، پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل کیا جاتا ہے جہاں بنیادی حقوق کی پامالی عام ہے۔
2024ء میں پاکستان کی انسانی حقوق کی صورتحال میں سنگین مسائل سامنے آئے ہیں، ’’ورلڈ جسٹس پراجیکٹ رول آف لا انڈیکس‘‘ نے پاکستان کو 140 ممالک میں سے 125 ویں نمبر پر رکھا، جو کہ انسانی حقوق کی فراہمی میں کم ترین درجہ بندی ہے۔
پاکستان کی اپنی وزارتِ انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق 2021ء سے 2023ء تک پنجاب میں خواتین پر تشدد، زیادتی اور قتل کے 4,376 کیسز رپورٹ ہوئے، جو کہ دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں اور یہ صرف ایک صوبے کی حالت ہے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے او آئی سی کانفرنس میں شمولیت کرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت اور پاکستان کی سیاسی چالوں کا حصہ بننا غیر اخلاقی اور نقصان دہ ہے، اگر اجلاس واقعی انسانی حقوق اور خواتین کی تعلیم کے لیے ہوتا، تو سب سے پہلے پاکستان میں جاری جبری گمشدگیوں، فوجی جبر، اور آزادی اظہار رائے پر پابندیوں پر بات ہوتی۔
افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور او آئی سی کو چاہیے کہ وہ اسے دباؤ میں لانے کے بجائے برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرے، افغان معیشت کی بحالی، تعلیم اور ترقی میں عملی اقدامات کیے جائیں، نہ کہ پاکستان کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے۔ اگر او آئی سی اپنی ساکھ برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے پاکستان کی ریاستی چالوں سے خود کو دور رکھنا ہوگا اور حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔