امارتِ اسلامی نے اپنی جدوجہد کے آغاز سے لے کر آج تک اپنے شرعی اہداف کے حصول کے لیے صرف داخلی پہلو پر توجہ نہیں دی، بلکہ اس نے ہمیشہ دنیا کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں، کیونکہ اس کا یقین ہے کہ افغانستان کی گزشتہ بدامنی میں بیرونی ہاتھ ملوث تھے۔ امارتِ اسلامی کی مؤثر خارجہ پالیسی کا کامیاب تجربہ دنیا کو بھی یہ یقین دلاتا ہے کہ امارتِ اسلامی کے ساتھ تعامل ممکن ہے، کیونکہ یہ اپنے وعدوں کا پابند، عوام کی تائید اور حمایت یافتہ نظام ہے۔
امارتِ اسلامی کا دنیا کے ساتھ تعلق دین اور قومی اقدار کی روشنی میں قائم ہے اور اپنے سیاسی جواز کی بنیاد پر اس نے بہت سے عالمی ممالک کو اس بات پر قائل کیا ہے کہ نہ تو وہ کسی کے داخلی معاملات میں مداخلت کا ارادہ رکھتی ہے اور نہ ہی افغان سرزمین کسی ہمسایہ یا دنیا کے کسی ملک کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اسی طرح، وہ دوسروں سے بھی توقع رکھتی ہے کہ نیٹو اور امریکہ کے انجام سے سبق سیکھیں اور افغانستان کے داخلی معاملات میں کبھی مداخلت نہ کریں، بلکہ ایک ایسے سیاسی تعامل کے لیے سامنے آئیں جو باہمی احترام کے اصولوں پر مبنی ہو۔
اگرچہ امارتِ اسلامی نے تقریباً ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں اندرونی امور اور ملک کی تعمیر و ترقی پر خاص توجہ دی ہے اور ہر ترقیاتی منصوبے کی عملی تکمیل کے ذریعے عوام کی حمایت یعنی اندرونی سیاسی جواز حاصل کیا ہے، تاہم اس نے خارجہ پالیسی میں بھی چین اور روس جیسے بڑے ممالک کے ساتھ سیاسی روابط کے ذریعے سفارتی تعلقات مضبوط رکھے ہیں۔
ایشیا کے ان دو بڑے اقتصادی و سیاسی طاقتوں، چین اور روس، میں اس وقت بھی امارتِ اسلامی کے نمائندے (سفیر) فعال موجودگی رکھتے ہیں، اور وہ صرف سیاسی سطح پر ہی نہیں بلکہ اقتصادی اور سماجی امور میں بھی افغانستان کے مفادات کے تحفظ اور افغان شہریوں کے جائز دفاع کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔ ان سفارتی روابط کے تسلسل میں ایک تازہ پیش رفت یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے ایک قونصل کی حیثیت سے تقرر کو افغانستان کی وزارتِ خارجہ نے تسلیم کیا، جس کا افغان عوام نے سوشل میڈیا پر گرمجوشی سے خیر مقدم کیا۔
یورپی ممالک میں بھی ایسے کئی سفارتی اہلکار اور ذمہ داران، جو جمہوریت کے دور میں برسرِ اقتدار گروہ (جمعیت) کے نمائندے تھے اور موجودہ نظام کے ساتھ وفادار یا اس کے پیروکار نہیں تھے، ان کو خود میزبان ممالک کی جانب سے برطرف کیا جا رہا ہے اور ان کے اسنادِ اعتماد واپس لیے جا رہے ہیں۔ یہ عمل بذاتِ خود امارتِ اسلامی کے ساتھ تعلقات کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے، اور بعید نہیں کہ جلد ہی نیویارک اور جنیوا جیسے مراکز میں بھی امارتِ اسلامی کے سیاسی نمائندوں کو خوش آمدید کہا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امارتِ اسلامی اس وقت مکمل داخلی سیاسی جواز حاصل کر چکی ہے، عوام کی نمائندگی کر رہی ہے اور انہی کے لیے کام کر رہی ہے۔ لہٰذا اب دنیا کے لیے یہ بہانہ باقی نہیں رہتا کہ وہ افغانستان کے اس جائز حق یعنی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے سے انکار کرے۔ اسی بنیاد پر، متعدد ممالک امریکہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں اور امارتِ اسلامی کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کرنے کے قریب ہو چکے ہیں، کیونکہ انہوں نے افغانستان کے موجودہ نظام کی عوامی حمایت اور سیاسی جواز کو بخوبی سمجھ لیا ہے۔
عالمی برادری، اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کو چاہیے کہ اس نازک وقت میں اپنی ذمہ داری کا صحیح ادراک کریں اور افغانستان کو تنہا نہ چھوڑیں، کیونکہ امارتِ اسلامی کی دوبارہ حاکمیت نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کی کامیابی کے بعد خانہ جنگی کے تکرار اور عالمی برادری کی بے پروائی کو روکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہمسایہ ممالک اور خطے کے لیے امن، بہتر تعلقات اور ایک متحد، قومی اور نمائندہ نظامِ حکومت کی ضمانت فراہم کی ہے۔
دنیا کے ممالک، خصوصاً اسلامی ممالک، کو اب یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ امارتِ اسلامی ایک عوامی خواہش سے قائم ہونے والا نظام ہے، جو اپنی قومی بجٹ اور خودمختاری سے چل رہا ہے اور گزشتہ تین سالوں میں نہ تو عالمی دباؤ اسے کمزور کر سکا ہے اور نہ ہی اس مقدس سرزمین سے کسی ہمسایہ یا عالمی ملک کو کوئی ممکنہ خطرہ لاحق ہوا ہے۔ ان شاءاللہ، آئندہ بھی ایسا کوئی خطرہ پیش نہیں آئے گا۔ بلکہ امارتِ اسلامی اپنے اسلامی اور قومی مفادات کی روشنی میں ہمسایہ، خطے اور دنیا کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنے پر سنجیدگی سے توجہ دیتی رہے گی۔