پاکستان کے صوبے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ پھیلایا جانے لگا کہ اس حملے کے پیچھے افغانستان کا ہاتھ ہے یا یہ کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی اور اس کے مرکزی کردار بھی وہیں مقیم ہیں۔
بعد میں سوشل میڈیا پر چلنے والے ان بے بنیاد دعوؤں کو پاکستان کی ریاستی پالیسی کا حصہ بنا دیا گیا، اور وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اسی نوعیت کا بیان جاری کیا۔ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان ہمیشہ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈالتا آیا ہے۔ یہ پاکستانی فوج کی پرانی حکمت عملی ہے کہ وہ اپنے عوام کو گمراہ کرتی رہتی ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ بیانیہ فروغ دے رہا تھا کہ بلوچ آزادی پسندوں کو بھارت کی حمایت حاصل ہے اور بھارت انہیں لاجسٹک اور سیاسی مدد فراہم کر رہا ہے، لیکن اب پاکستان اس طرح کے الزامات افغانستان پر لگا رہا ہے۔
پاکستان کے اس بے بنیاد دعوے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں؟
پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی اس جھوٹی مہم کے پیچھے ایک ’’مقبول بیانیہ‘‘ بھی ہے، جو وہ گزشتہ دو سالوں سے افغانستان کے خلاف چلا رہی ہیں تاکہ افغانستان کو اپنی تمام ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے اور عوامی تنقید سے بچا جا سکے۔
اس کے علاوہ، افغانستان کے شواہد پر مبنی مؤقف کو کمزور دکھانے کے لیے، پاکستان ’’الزام تراشی‘‘ کی پالیسی اپنا رہا ہے۔ معلومات کے مطابق، پاکستان کو خاص طور پر یہ معلومات اور شواہد دیے گئے تھے کہ حاجی خلیل الرحمن شہید پر حملے کی منصوبہ بندی پاکستان سے کی گئی تھی اور حملہ آور بلوچستان سے افغانستان آیا تھا۔
اسی طرح، قندوز میں کابل بینک پر حملہ بھی پاکستان سے منظم ہوا تھا اور حملہ آور پاکستان سے آیا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال افغانستان میں ہونے والے تمام حملوں کا انتظام و منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔ ان تمام معاملات سے پاکستان کو آگاہ کیا گیا اور شواہد بھی ان کے ساتھ شیئر کیے گئے، لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں ٹرین پر حملے کے بعد پاکستان نے جوابی دعویٰ کیا کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ افغانستان میں موجود تھا۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ مولانا حامد الحق پر حملہ، جو کہ داعش نے کیا، پاکستان کے لیے شدید تنقید کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں داعش کے کچھ رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد پاکستان نے ان داعشی دہشت گردوں میں سے ایک شریف اللہ کو امریکہ کے حوالے کر دیا اور باقی کے حوالے سے ایران اور روس کے ساتھ معاملات طے کر رہا ہے۔ اس وجہ سے بھی پاکستان کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان دوہری پالیسی اپنا رہا ہے۔
پاکستان میں داعش خراسان کے مراکز کی موجودگی، ان کی پاکستانی ریاست کی جانب سے نگرانی اور ان کی خرید و فروخت کے کھیل کے آغاز کے بارے میں افغانستان نے بارہا دنیا کو خبردار کیا ہے اور پاکستان کی اس پالیسی کو بے نقاب بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان نے جوابی طور پر افغانستان پر الزامات عائد کرنا شروع کر دیے ہیں۔
مزید برآں ایسا کوئی زمینی حقیقت پر مبنی ثبوت موجود نہیں جو یہ ثابت کرے کہ امارتِ اسلامی بلوچ علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے، کیونکہ امارتِ اسلامی کا نظریہ اور فکری اساس بلوچ علیحدگی پسندوں کے نظریے سے بالکل مختلف ہے۔ بلوچ تحریک قوم پرستی کے نظریے سے جُڑی ہوئی ہے، جب کہ امارتِ اسلامی کا منہج اور طریقۂ کار بالکل واضح اور اسلامی بنیادوں پر استوار ہے۔
لہٰذا یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی ان بے بنیاد بیانیوں اور الزامات کے پیچھے اس کی اپنی ناکامیوں سے راہِ فرار اختیار کرنا، اپنی سرزمین پر داعش کے مراکز سے دنیا کی توجہ ہٹانا، اور بین الاقوامی سیاست میں اپنی اہمیت اور ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوششیں شامل ہیں۔