آزمائش و امتحان کا یہ قانون قوموں، گروہوں، ملتوں، انسانی نظریات اور معاشروں پر جاری و ساری ہے۔ اسی طرح سلطنتِ عثمانیہ بھی اس راستے سے گزری، باہمی اختلافات کے باوجود عثمانی انقرہ تک پہنچنے میں درپیش مشکلات کے سامنے ڈٹے رہے، یہاں تک کہ سن ۱۴۱۳ء میں سلطان محمد اوّل بلا شرکت غیر سلطنت عثمانیہ کا بادشاہ بن گیا، اور وہ عظیم علاقے جو اس کی سلطنت کے زیر اثر تھے، بتدریج سلطنتِ عثمانیہ کے کنٹرول سے نکل گئے۔
انقرہ کے واقعے کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کا ختم ہونا دراصل اسی ربانی طریقۂ کار کا نتیجہ تھا، جس پر یہ عظیم سلطنت قائم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے عثمانیوں کو عقیدہ، مذہب، اخلاق، عادات اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے سبب دیگر مسلمانوں پر فضیلت دی تھی۔ عثمانیوں نے بھی اپنے دینی اور اخلاقی جذبے کو آخر تک بلند رکھا۔ اورخان اور اُس کا بھائی علاءالدین بڑی بصیرت اور قابلیت سے حکومت کرتے رہے۔ ان کی طاقت اُس وقت کی عدالتی اور انتظامی نظام، بچوں اور نوجوانوں کی تربیت اور دیگر اہم امور میں نمایاں تھی۔
انقرہ کے سانحے کے بعد ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ گزشتہ تباہی، بربادی اور کھنڈرات پر دوبارہ سلطنت قائم کی گئی، کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کی گئی۔ ان کی رگوں میں پھر سے شرعی زندگی کا خون دوڑنے لگا، اور عزم و حوصلے کے ساتھ انہوں نے اقتدار اور اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہی وجہ تھی کہ دوست اور دشمن، دونوں اُن کے عروج پر حیران رہ گئے۔
سلطان محمد اول
سلطان محمد اول سن ۷۸۱ ہجری / ۱۳۷۹ء میں پیدا ہوا۔ اپنے والد سلطان بایزید کی وفات کے بعد وہ سلطنتِ عثمانیہ کا حکمران بنا۔ تاریخ میں وہ محمد چلبی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اُس کا قد درمیانہ، چہرہ گول، بھنویں پتلی، رنگت سفید، چہرہ خوبصورت، سینہ کشادہ اور جسم مضبوط تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے غیر معمولی بہادری اور شجاعت عطا فرمائی تھی۔ کُشتی اور پہلوانی میں بھی مہارت رکھتا تھا۔ اپنی حکومت کے دوران اس نے ۲۴ جنگوں میں حصہ لیا اور چالیس مرتبہ زخمی ہوا۔
احتیاط، حکمت اور گہری بصیرت کی بنیاد پر اس نے خانہ جنگی پر قابو پایا اور مسلسل کامیابیاں حاصل کیں، یہاں تک کہ اُس نے سلطنت کو نئے ستونوں پر استوار کیا، اور ان ستونوں کو مضبوط بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس کی طویل حکومت کا بڑا حصہ انہی اصلاحات میں صرف ہوا۔ کچھ مؤرخین اُسے سلطنتِ عثمانیہ کا دوسرا مؤسس اور بانی قرار دیتے ہیں۔
سلطان محمد کو دیگر سلاطین سے جو چیز ممتاز کرتی تھی، وہ اُس کا احتیاط، نرمی، صبر اور برداشت تھی۔ جو بھی قانون توڑتا یا سلطنت سے بغاوت کرتا، سلطان اُس کے ساتھ نرمی اور بردباری سے پیش آتا۔ قرمان کے علاقے کا سردار جب بغاوت پر اُتر آیا اور سلطان کے سامنے لایا گیا تو سلطان نے اُسے قرآن کریم کی قسم دے کر معاف کیا۔ مگر جب اُس نے دوبارہ قسم توڑ کر بغاوت کی اور پھر سلطان کے سامنے آیا، تو سلطان نے ایک بار پھر اُسے معاف کر دیا۔ سلطان کی غرض و غایت یہ تھی کہ نئی تشکیل دی گئی سلطنت کی بنیادیں مضبوط ہوں۔
اسی بنا پر جب سلطان محمد کو کلیتبولی کے ساتھ جنگ میں شکست ہوئی، تو اُس نے بحیرہٴ اسود کے کنارے واقع چند شہر اور نسالیانیز صالح کی بندرگاہیں قسطنطنیہ کے حکمران کے حوالے کر دیں، اور اُس کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا۔ اس طرح اُس نے فتنوں کو کم کیا، یورپ میں اُٹھنے والی بغاوتوں کا خاتمہ کیا، اور ایشیا کے وہ امارتیں، جنہیں امیر تیمور نے عثمانیوں کے خلاف ابھارا تھا، دوبارہ اپنی نئی سلطنت کی تابع بنا لیں۔
یہ امارتیں ایک بار پھر سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ بن گئیں۔ سلطان محمد کے دور میں بدرالدین نامی ایک شخص ظاہر ہوا، جو خود کو مسلمان عالم کے طور پر پیش کرتا تھا۔ وہ سلطان کے بھائی موسیٰ کے لشکر میں شامل ہوا اور سلطنتِ عثمانیہ کے سب سے بڑے دینی و عدالتی منصب قاضی العسکر کی جگہ پر فائز ہوا۔ موسیٰ بن یزید نے اُسے اپنا خاص اور قریبی دوست بنا لیا، اور عوام میں بھی وہ ایک دینی و عقیدتی رہنما کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔
مشہور تاریخی کتاب الشقائق النعمانیہ کے مصنف لکھتے ہیں: شیخ بدرالدین محمود بن اسرائیل، جو ابن سیماونہ کے نام سے مشہور تھا، روم کے علاقے سیماونہ کے قلعے میں پیدا ہوا، جو ادرنہ (ایدریانوپل) کے مضافات میں واقع ہے، اور ترکی کے اس حصے میں آتا ہے جو یورپ میں واقع ہے۔ اُس کے والد یہاں کے قاضی اور فوجی سربراہ بھی تھے، اور یہی قلعہ انہوں نے فتح کیا تھا۔
بدرالدین کی پیدائش سلطان غازی خداوندکار (سلطان مراد اول) کے دور میں ہوئی۔ بچپن میں اس نے اپنے والد سے علم حاصل کیا، قرآن کریم حفظ کیا، اور ابتدائی دینی کتب مشہور عالم مولانا شاہدی سے پڑھیں۔