خوارج جن بڑے گناہوں میں مبتلا ہیں، ان میں سے کچھ درج ذیل بھی ہیں:
۸: قتل العاهدین و اهل الأمان والعهد (عہد و امان والوں کا قتل):
اللہ جل جلاله نے قرآنِ عظیم الشان میں کئی بار یہ مسئلہ بیان فرمایا ہے کہ مسلمان کبھی بھی خائن (دھوکہ باز) نہیں ہونا چاہیے، اور خیانت ان بڑے گناہوں میں سے ہے جن کی حرمت اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں واضح طور پر بیان فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ‘‘(سورۃ الأنفال، آیت: ۵۸)
ترجمہ: اور اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت (دھوکہ) کا خوف ہو، تو برابری کی بنیاد پر اُن کے ساتھ معاہدہ ختم کر دو، بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’من قتل معاهَدًا لم يرح رائحة الجنة، وإن ريحها ليوجد من مسيرة أربعين عامًا‘‘(بخاری شریف)
ترجمہ: جو شخص کسی معاہد (یعنی جس سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو) کو قتل کرے، وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے سے بھی محسوس ہوتی ہے۔
لیکن خوارج قرآنِ کریم کی آیات اور احادیثِ نبویہ کے خلاف عمل کرتے ہوئے ہمیشہ معاہدین کو قتل کرتے ہیں۔ وہ اسلامی نظام کو بدنام کرنے کے لیے اُن کفار کو جو مستأمن (امان یافتہ) اور معاہد (معاہدہ والے) ہوتے ہیں، قتل کرتے ہیں؛ جیسا کہ ہم نے کئی بار داعشی خوارج کو افغانستان اور دیگر ممالک میں معاہدین کو قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
۹: إشعال الفتنة (فتنے کو ہوا دینا):
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’وَٱتَّقُوا۟ فِتْنَةًۭ لَّا تُصِيبَنَّ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ مِنكُمْ خَآصَّةًۭ ۖ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ‘‘(سورۃ الأنفال، آیت: ۲۵)
ترجمہ: اس فتنے سے بچو جو صرف ظالموں کو ہی نہیں، بلکہ تم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الفتنة نائمة، لعن الله من أيقظها‘‘(رواہ الطبرانی)
ترجمہ: فتنے سوئے ہوئے ہیں، اللہ کی لعنت ہو اُس شخص پر جو فتنے کو جگائے۔
لیکن خوارج امتِ مسلمہ کے درمیان بڑے بڑے فتنے کھڑے کرتے ہیں، جنگیں چھیڑتے ہیں، بغاوتیں برپا کرتے ہیں، اور اسلامی حکومتوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں تاکہ اپنے ناپاک مقاصد حاصل کر سکیں۔
۱۰: زرع ونشر اسباب الفرقة (تفرقہ پھیلانا اور اختلاف کا بیج بونا):
اللہ جل جلاله نے قرآنِ کریم میں مسلمانوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کی تلقین کی ہے اور کفار کے مقابلے میں متحد ہونے کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌۭ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ‘‘(سورۃ الحجرات، آیت: ۱۰)
ترجمہ: بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ۔
اور ایک اور مقام پر فرمایا:
’’وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُواْ‘‘(سورۃ آل عمران، آیت: ۱۰۳)
ترجمہ: اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا ترجعوا بعدي كفارًا يضرب بعضكم رقاب بعض‘‘
(رواہ البخاری و مسلم)
ترجمہ: میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
لیکن خوارج ہمیشہ مسلمانوں کی صفوں کو توڑتے رہے ہیں، امت کو تقسیم کرتے ہیں، اور ہر ایک کو کافر قرار دیتے ہیں۔