اب تک ہم نے دس ایسے گناہوں کا مطالعہ کیا جو خوارج نے کیے تھے، اور یہ گناہ نہ صرف ان کے انفرادی انحراف کی علامت ہیں، بلکہ امت مسلمہ کے خلاف ایک بہت بڑی خیانت بھی شمار ہوتے ہیں۔
مزید جرائم اور کبیرہ گناہ درج ذیل ہیں:
۱۱۔ تشويه صورة الإسلام (دینِ اسلام کا غلط تصور پیش کرنا)
اسلام امن، رحمت، عدل اور انسانیت کا دین ہے، لیکن بعض افراد اپنے غلط کردار یا انتہا پسندانہ رویے کی وجہ سے اس مقدس دین کی تعلیمات کو مسخ کرتے ہیں۔ وہ اسلام کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے یہ صرف سختی، تشدد اور شدت پسندی کا دین ہو۔ یہ کام اکثر وہ لوگ کرتے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے ناآشنا ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ‘‘ (سورۃ الانعام: ۲۱)
ترجمہ: اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’من كذب علي متعمداً فليتبوأ مقعده من النار‘‘۔(صحیح بخاری)
ترجمہ: جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
تاریخ میں بعض انتہا پسند گروہوں، جیسے خوارج، نے اسلام کے عدل، رحمت اور رواداری کے چہرے کو مسخ کر کے اسے شدت پسندی، سختی اور قتل و غارت گری کے طور پر متعارف کرایا۔ ان کے اعمال کی وجہ سے غیر مسلموں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی کہ اسلام ظلم اور خونریزی کا دین ہے، حالانکہ اسلام ان تمام افعال کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔
۱۲۔ (اعطاء العدو الفرصة لانتهاک دیار المسلمین او الاستهزاء بالدين (دشمن کو مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کرنے یا دین کا مذاق اُڑانے کا موقع فراہم کرنا):
اللہ تعالیٰ قرآن عظیم الشان میں ظالموں کی حمایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ‘‘ (سورہ ہود: ۱۱۳)
ترجمہ: اور ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکو، ورنہ تمہیں آگ پکڑ لے گی۔
یہ آیت ہمیں خبردار کرتی ہے کہ ہم ایسے اعمال کی حمایت نہ کریں جو ظالموں کی تقویت کا سبب بنیں۔
لیکن خوارج نے داخلی فتنوں، انتہا پسندی اور غلط پروپیگنڈے کے ذریعے دشمنوں کو یہ موقع دیا کہ وہ مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کریں، اسلامی ممالک پر قبضہ کریں اور مقدسات کی بے حرمتی کریں۔
۱۳۔ إضعاف الدولة الاسلامیة (اسلامی ریاست کو کمزور کرنا):
اسلامی ریاست نظم، عدل اور شریعت کے نفاذ کا مرکز ہے۔ جو شخص اس نظام کو کمزور کرتا ہے یا اس کے خلاف سرگرم ہوتا ہے، وہ امت کی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے اور فتنوں کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ عمل امت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا‘‘ (سورہ آل عمران: ۱۰۳)
ترجمہ: اور تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ فرقہ نہ بنو۔
تفرقہ اور اختلاف مسلمانوں کی قوت کو ختم کر دیتے ہیں۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’من فارق الجماعة شبراً فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه‘‘ (صحیح مسلم)
ترجمہ: جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی جدا ہو جائے، اس نے اپنے گلے سے اسلام کا طوق اتار پھینکا۔
خوارج نے ہمیشہ یہی روش اپنائی ہے؛ وہ اہل حل وعقد کی جانب سے منتخب مسلم امراء و حکام کے خلاف بغاوت کرتے رہے اور امت کو تقسیم کرتے رہے۔