اہل علم نے احادیث اور اسلامی تاریخ کے مطابق خوارج کے بارے میں مفصل تحریریں لکھی ہیں۔ خوارج وہ لوگ ہیں جو امت مسلمہ سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں اور انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو خوارج کے خطرے سے آگاہ کیا اور ان سے لڑنے کی تلقین کی اور خوارج کے خطرے کا ذکر کیا، ایک مشہور حدیث شریف میں روایت ہے:
«يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَاءُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.» (بخاري و مسلم)
ترجمہ: آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے، جو نوجوان اور کم عقل ہوں گے، وہ بہترین بات کریں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین اسلام سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر شکار کے بدن کو پار کر کے نکلتا ہے، اگر تم انہیں پاؤ تو انہیں قتل کرو، کیونکہ ان کے قتل پر قیامت کے دن اللہ اجر عطا فرمائے گا۔
نیز خوارج کے خلاف جنگ کو باعث ثواب اس لیے کہا گیا کہ وہ امت مسلمہ میں خوف و ہراس پھیلاتے ہیں، لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور اسلام کے بنیادی پیغام کو مسخ کرتے ہیں، خوارج کے غلوپسند نظریات اورانتہا پسندی کے خلاف کھڑا ہونا مسلمانوں کے اتحاد و امن کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کو قتل کرنے کے ثواب کا ذکر فرمایا۔ اس سے خوارج کے خطرے کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے، علمائے اسلام کے نزدیک اس اجر و ثواب کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لیے خوارج کے خلاف جنگ کرنا ہے، کیونکہ خوارج اسلامی امت اوراس کے اتحاد کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
موجودہ وقت میں اکثر علمائے اسلام اسلامی اصولوں کے خلاف انتہا پسندی، تشدد اور معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے گروہوں کو خوارج کی طرح سمجھتے ہیں۔ علماء کا خیال ہے کہ داعش اور اس سے ملتے جلتے دوسرے گروہ خوارج جیسی خصوصیات رکھتے ہیں، کیونکہ وہ اسلام کو اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے لیے غلط استعمال کرتے ہیں اور امت میں خوف اور افراتفری پھیلاتے ہیں۔
فقہ اسلامی اور تاریخ میں بہت سے علماء خوارج کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے مثبت رائے رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایسی جدوجہد حکومت اور علمائے کرام کی رہنمائی میں ہی ہو سکتی ہے، تاکہ خوارج کی انتہا پسندی اور فتنہ کو ختم کیا جا سکے اور بے گناہ مسلمان ان کی اذیت سے محفوظ رہ سکیں۔
ان کے نزدیک خوارج وہ لوگ ہیں جو اسلامی شریعت کے بجائے دین اسلام کی من مانی اور بنیاد پرست تعبیر پرعمل کرتے ہیں اور اگرمسلمان ان کے خیالات سے اختلاف کریں تو انہیں "کافر” سمجھتے ہیں۔
حنفی علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خوارج کے خلاف جنگ اسلامی حکومت یا سرکاری اداروں کی رہنمائی میں ہونی چاہیے اور یہ کہ صرف انفرادی یا بے بنیاد جنگ اسلام تعلیمات کے مطابق مناسب نہیں، فقہ حنفی کے مطابق نظم و ضبط برقرار رکھنا اور فتنہ کو روکنا اسلامی حکومت اورمقتدر حکام کی ذمہ داری ہے۔
مختصر یہ کہ خوارج کو قتل کرنے کا حکم اس وقت جائز اور قابل ثواب سمجھا جاتا ہے جب وہ امت مسلمہ کے خلاف تشدد اور فساد میں ملوث ہوں اور مسلمانوں کے خون خرابے کا باعث ہوں۔
موجودہ دور میں بھی داعشی خوارج مسلمانوں کا خون بہانے اور عدم استحکام پیدا کرنے میں ملوث ہیں اور معاشرے کی حفاظت کے لیے حکمران طبقہ کے حکم سے ان کے خلاف فیصلہ کن کاروائی ہونی چاہیے تاکہ امت انتہا پسندی، فتنہ وفساد سے محفوظ رہے۔