خوارج کی پہچان! | تیسری قسط

راشد شفيق

خوارج نے جنگِ صفین کے بعد کیسے اور کیوں خروج کیا؟

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، تو معاویہ بن ابی سفیان جو شام کے گورنر تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اس وقت تک بیعت نہ کرنے کا عہد کیا، جب تک کہ قاتلین عثمانؓ سے قصاص نہیں لیاجاتا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارادہ یہ تھا کہ پہلے تمام شہروں اور ان کے باشندوں کو اپنی حکومت کے تحت لایا جائے کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد فتنہ بہت بڑھ چکا تھا، قاتلوں نے اپنے آپ کو عوام میں چھپایا ہوا تھا اور ان کی شناخت مشکل ہو گئی تھی، قاتلوں کا پتہ لگانا اور شرعی دلائل کی بنیاد پر قصاص کا فیصلہ کرنے میں وقت درکار تھا، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ اس بات کے لیے تیار نہیں تھے کہ وقت دیا جائے، انہیں یہ خوف تھا کہ اگر زیادہ وقت گزر گیا تو قاتل بکھر جائیں گے اور سزا سے بچ جائیں گے۔

جانبین کے اپنے دلائل تھے جن پر وہ قائم تھے، بالآخر دونوں فریق صفین کے میدان میں آمنے سامنے جنگ کرنے کے لیے نکلے، حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق کی فوج کی قیادت کر رہے تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ شامی فوج کے سربراہ تھے۔

جنگ کے دوران جب معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج کو اپنی شکست نظر آئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فتح کے امکانات بڑھ گئے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا کہ اس صورتحال سے کس طرح بچا جائے، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں مشورہ دیا کہ نیزوں کی نوکوں پر قرآن اٹھائیں اور عراقی فوج سے قرآن کے حکم پر عمل کرنے کی درخواست کریں۔

مسعودی کے مطابق، اس وقت شامی فوج نے ۵۰۰ قرآن نیزوں پر اٹھائے اور عراقی فوج سے قرآن کے حکم پر عمل کرنے کی درخواست کی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس بارے میں مؤقف شروع سے ہی بہت محتاط اور فیصلہ کن تھا، انہیں یقین تھا کہ اس درخواست کا مقصد ان کی فوج میں اختلاف پیدا کرنا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج کو اپنے طاقت کو دوبارہ بحال کرنے کا وقت دینا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو اس درخواست کو قبول کرنے کے نتائج سے خبردار کیا، لیکن ان کی فوج میں ایک گروہ تھا جو جنگ روکنے کی خواہش رکھتا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تحکیم کے لیے راضی ہونے کی درخواست کر رہا تھا۔

یہ گروہ "خوارج” کے نام سے جانا جاتا ہے، جو بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو "امیرالمؤمنین” کہنے کی بجائے ان کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا:

"اے علی! کتاب اللہ کی بات پر لبیک کہو، ورنہ ہم تمہارے ساتھ وہی کریں گے جو ہم نے عثمان کے ساتھ کیا۔”

اس گروہ نے بہت سخت زبان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ تحکیم کو تسلیم کریں، ان کا نظریہ تھا کہ یہی اسلام کا حکم ہے، اور قرآن کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:

"ألم تر إلى الذين أوتوا نصيباً من الكتاب يدعون إلى كتاب الله ليحكم بينهم ثم يتولى فريق منهم وهم معرضون”

ترجمہ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو کتاب میں سے کچھ حصہ پانے کے باوجود انہیں اللہ کی کتاب کے ذریعے فیصلہ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے، پھر ان میں سے ایک گروہ رخ موڑ لیتا ہے۔

اسی طرح، اس گروہ کی درخواست کی وجہ سے تحکیم کا آغاز ہوا، لیکن بعد میں یہی گروہ "خوارج” کے نام سے مشہور ہوا اور دین سے منحرف ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا۔

Author

Exit mobile version