خوارج کی پہچان | پانچویں قسط

راشد شفيق

خوارج کی انقلابی سرگرمیاں

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، خوارج نے اپنے تنظیم کی بنیاد شدت پسندی پر رکھی اور اپنا اثر و رسوخ بڑھایا، ان کی انقلابی سرگرمیاں ہمیشہ سخت اور پرتشدد رہی ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف محکمہ نامی جماعت کے نکلنے سے ہوا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ جماعتیں چھوٹے عسکری گروپوں میں تقسیم ہوگئیں جو ہدفی قتل کی صورت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور پھر امویوں کے خلاف بغاوتیں کرتی رہیں۔

نافع بن ازرق کی قیادت میں 64 ہجری کو خوارج بڑے گروپوں میں تقسیم ہو گئے جو عباسی خلافت کے دور تک جاری رہے، خوارج کو موجودہ زمانے کے مفہوم میں "مخالف جماعت” سمجھا جاتا تھا، ان کی یہ تحریکیں تاریخ اور فرقوں کی کتابوں میں درج ہیں۔

خوارج کی فرقے (گروہ)

اللہ جل جلالہ نے لوگوں پر رحم فرمایا کہ خوارج آپس میں مختلف گروپوں میں تقسیم ہو گئے، اگر وہ متحد ہو جاتے تو مسلمانوں کے لیے بڑی مصیبت بن سکتے تھے؛ خوارج کے درمیان اختلافات عموماً ان کے سخت نظریات کی وجہ سے تھے۔ جب نافع بن ازرق نے مذہب میں تقیہ اور مخالفین کے بچوں کے بارے میں اپنے خیالات پیش کیے تو ان میں مزید اختلافات پیدا ہو گئے اور وہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔

کچھ فرقے گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے، کچھ نے دوسرے فرقوں کے ساتھ اتحاد کیا اور کچھ نے اپنے غلط نظریات ترک کر دیے۔

خارجی فرقوں کی تعداد

علماء نے خارجی فرقوں کے بارے میں مختلف آراء پیش کی ہیں، جیسے علامہ اشعری رحمہ اللہ نے خوارج کو چار فرقوں میں تقسیم کیا، بعض علماء نے انہیں پانچ، کچھ نے سات اور بعض نے پچیس فرقوں میں تقسیم کیا، بعض آراء کے مطابق خوارج کی فرقے ان سے بھی زیادہ تھے۔

خارجی فرقوں کی درست تعداد معلوم نہ ہونے کے ممکنہ اسباب میں درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:

۱۔ خوارج جنگوں اور حالات کی وجہ سے غیر مستحکم رہے۔

۲۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے الگ ہو جایا کرتے تھے۔

۳:- خوارج اپنی کتابوں کو لوگوں کے خوف یا اپنے لیے چھپاتے تھے، اس لیے ان کے نظریات کے بارے میں درست معلومات حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔

اباضیہ فرقہ (خوارج کا واحد موجودہ گروہ):

اباضیہ وہ گروہ ہے جس کے اب بھی دنیا میں بہت سے پیروکار ہیں، یہ گروہ اپنے سیاسی، مذہبی اور سماجی نظریات کی وجہ سے خاص مطالعے کا متقاضی ہے۔

اباضیہ کا رہنما:

اباضیہ اپنے مذہب میں خود کو جابر بن زید الازدی سے منسوب کرتے ہیں، جو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد تھے، لیکن اس فرقے کا تعلق عبدالله بن اباض کی طرف منسوب کیا جاتاہے، کیونکہ حکام کے حوالے سے ان کا مؤقف مشہور تھا۔ عبدالله بن اباض کا تعلق بنو تمیم قبیلے سے تھا اور تابعین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

صحابہ کرام کے حوالے سے اباضیہ کا مؤقف:

تمام خوارج، خاص طور پر اباضیہ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مکمل طور پر رضا اور احترام کا مؤقف رکھتے ہیں، لیکن حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں انہوں نے بے ادبی کی ہے اور ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قراردیا ہے۔

انہوں نے حضرت طلحه اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بھی سخت مؤقف اپنایا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو جنت کی بشارت دی تھی۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"میرے صحابہ کو برے الفاظ سے یاد نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا دے، تو ان (صحابہ) کے ایک مد(ایک پیمانہ) کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔”

اگر اس گروہ کے نزدیک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ کرام کی عزت نہیں ہے، تو پھر ان کے نزدیک معزز کون ہیں؟

Author

Exit mobile version