داعش، ایک منحرف گروہ کی حیثیت سے، اپنے قیام کے آغاز ہی سے اپنے آقاؤں کی اُس سازش کی تکمیل میں مصروف عمل ہے جو مغرب میں اسلام کو بدنام کرنے اور شکست دینے کے لیے ترتیب دی گئی تھی۔ اس گروہ کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ اسلام کو خود مسلمانوں کے سامنے ایک خوفناک اور امن دشمن دین کے طور پر پیش کرے، تاکہ اس کے تیزی سے پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس (داعش) کے لیے بالواسطہ طور پر وہ مقامی گماشتے اور مسترد شدہ عناصر بھرتی کیے گئے، جو اس مقصد کی تکمیل میں آلۂ کار بن سکیں۔
جہاں تک یہ دعویٰ ہے کہ افغانستان عالمی سطح پر اس خارجی گروہ کی پناہ گاہ بن چکا ہے، تو یہ ایک بے بنیاد اور بے کار پروپیگنڈا ہے۔ درحقیقت یہ سب کچھ امریکہ اور اس کی اتحادی بین الاقوامی قوتوں کی ایک تیارکردہ کہانی تھی، جس کے پردے میں ’’مقدس نعروں‘‘ اور جعلی چہروں کو چھپا کر ایک پراکسی گروہ کی شکل میں اسے میدان میں اتارا گیا۔ تاہم الحمد للہ، یہ منصوبہ افغانستان میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
اپنی شکست کے بعد، اس گروہ نے بزدلانہ حرکات جیسے امارت کے رہنماؤں کا قتل یا کبھی کبھار خوف و ہراس پھیلانے کی کوششیں شروع کیں۔ لیکن اب تک حاصل شدہ شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ داعش ایک بیرونی پیداوار اور سازش ہے، جس کے تمام منصوبے اور ان پر عملدرآمد کرنے والے عناصر افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں چھپے ہوئے ہیں۔
امارتِ اسلامی کے رہنما بارہا واضح کر چکے ہیں کہ افغانستان کو تنہا اس خطرناک فتنے کا شکار نہیں بننا چاہیے، بلکہ اس کے خلاف جدوجہد میں عالمی برادری کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ امارتِ اسلامی کا یہ مؤقف صرف دعویٰ نہیں، بلکہ اس کے ٹھوس شواہد ماضی میں بار بار پیش کیے جا چکے ہیں۔ اس مؤقف کی تازہ ترین تائید خود امریکا کے سابق اعلیٰ حکام نے بھی کی ہے، جن میں دوحہ امن معاہدے کے موقع پر امریکی وفد کے سربراہ زلمی خلیلزاد پیش پیش ہیں۔
چند روز قبل خلیلزاد نے اپنی ’’ایکس‘‘ پوسٹ میں انکشاف کیا کہ ان کے پاس مؤثق اطلاعات موجود ہیں، جن کے مطابق داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیمیں اس وقت پاکستان میں موجود ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ اپنی سرزمین پر ان گروہوں کی موجودگی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور اس پر مؤثر کارروائی کرے۔
زلمی خلیلزاد کے بقول:
’’داعش نہ صرف پاکستان کے لیے، بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ سب یہ سمجھ لیں کہ دہشت گردی کو بطور حکمتِ عملی استعمال کرنا ایک تباہ کُن کھیل ہے، جو بالآخر پلٹ کر انہی کے خلاف استعمال ہوگا جنہوں نے اسے ہوا دی ہوگی‘‘۔
خلیلزاد نے یہ بھی انکشاف کیا کہ گذشتہ مارچ کے وسط میں بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بلوچ مسلح افراد نے داعش کے ایک کیمپ پر حملہ کیا، جس میں ۳۰ داعشی جنگجو مارے گئے۔ ان میں ازبک، ترک، بھارتی اور تاجک دہشت گرد شامل تھے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ اطلاعات درست ہیں اور اب پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی، پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے لیے نامعلوم نہیں رہنی چاہیے۔
انہوں نے یہ وضاحت پاکستان کے وزیرِ دفاع کے ان بیانات کے ردِّعمل میں دی، جن میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ امریکا کے اشارے اور تعاون سے، گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان نے مختلف دہشت گرد گروہوں کو پناہ دی، مگر اب وہ اس پالیسی پر پشیمان ہیں۔
خلیلزاد کی ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور خطے کی طاقتوں کے لیے ضروری ہے کہ اس فتنے کے سدباب کے لیے متحد اور یک آواز ہوں۔ کیونکہ اگر ایسے خطرناک رجحانات اور فتنے بروقت ختم نہ کیے گئے اور انہیں عالمی امن کے لیے ایک مشترکہ ذمے داری کے طور پر نہ دیکھا گیا، تو کسی ایک ملک کی قربانیاں اور کوششیں اس کی جڑوں کو کاٹنے کے لیے کافی نہیں ہوں گی۔
چونکہ اس وقت پاکستان عالمی دباؤ کا شکار ہے اور صرف الزام تراشی اور سیاسی چالوں کو آگے بڑھا رہا ہے، تو اسے یہ حقیقت بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ آخرکار دنیا کا صبر جواب دے جائے گا، اور اس خطرناک کھیل کی ذمہ داری اور نقصان اُسی کے سر آئے گا۔ داعش نہ کسی کے لیے مفید ہے اور نہ ہی کسی کی خیرخواہ، اب وقت آ گیا ہے کہ اس کی جڑیں کاٹ دی جائیں، خطے اور عالمی تعاون کی روشنی میں حقائق کو تسلیم کیا جائے اور امارت اسلامی کی داعش مخالف کوششوں کا اعتراف کیا جائے۔