اسلام کی سنہری تعلیمات میں جہاد ایک ایسا مقدس مفہوم ہے جس نے ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو آزادی، عزت اور سرفرازی کی راہ دکھائی ہے اور مخالفین کو شرمناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مقدس لفظ جہاد کو چند سیاہ اور منحوس چہروں نے بدنام کر دیا ہے۔ خلافت اور اسلامی ریاست جیسے الفاظ اپنی اصل میں مقدس اور قابلِ احترام ہیں، مگر چند باغی اور خون ریز گروہوں نے انہیں اس قدر داغدار کیا کہ پوری امت ان الفاظ سے بھی متنفر ہو گئی۔
ان گروہوں نے جہاد کے نام پر مسلمانوں کا خون بہایا، معصوم بچوں کو شہید کیا اور معاشرے کے کسی طبقے کو بھی اپنے شر سے محفوظ نہ چھوڑا۔
لہٰذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ داعش، جہاد کے مقدس نام کی آڑ میں دراصل اغیار کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہی ہے۔ وہ مغربی طاقتوں کی جانب سے پیش کیے گئے منصوبوں کا عملی چہرہ ہیں۔ ورنہ اسلام کسی بھی صورت میں جہاد کے نام پر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ شرعی و قانونی حکمرانوں کے خلاف بغاوت، علماء، معصوم بچوں اور اہلِ حق کو شہید کرنا نہ صرف جہاد نہیں، بلکہ اسلام کے مطابق ایک مردود اور سنگین گناہ ہے، جس کا ارتکاب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ اور مغفرت طلب کرنی چاہیے۔
اسلام تو کفار کے خلاف بھی فوراً جہاد کا آغاز نہیں کرتا، بلکہ پہلے اپنے پیروکاروں کو دعوت دینے اور پرامن طریقے سے اصلاح کی تلقین کرتا ہے، تاکہ کفار بغیر جنگ کے مسلمان ہو جائیں اور خون ریزی نہ ہو
تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام مسلمانوں کے خلاف جنگ کی اجازت دے؟ اگر یہ عقیدے کے نام پر کیا جائے تو یہ ایک فکری گمراہی ہے اور اگر دانستہ ہو یا اغیار کے منصوبوں کا حصہ ہو، تو یہ امت کے ساتھ ایک بہت بڑی خیانت ہے۔
داعش نہ صرف ان اصولوں کو پامال کر چکی ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی ان تعلیمات کو بھی نظرانداز کیا ہے جن میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’استوصوا بالأساری خیرا‘‘
ترجمہ: قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو(المعجم الکبیر للطبرانی:(۹۷۷)
داعش نے کبھی بھی قیدیوں کے ساتھ سیرتِ نبیﷺ کے مطابق سلوک نہیں کیا، بلکہ اکثر اوقات مسلمانوں کو
اپنے باطل عقائد کی بنیاد پر کافر قرار دے کر قتل کیا یا زندہ جلایا۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے: عن عمران بن حصین قال: ’’کان رسول الله یحثنا علی الصدقة و ینهانا عن المثلة‘‘ (سنن أبي داود:۲۶۶۷)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ ہمیں صدقہ دینے کی ترغیب دیتے تھے اور مثلہ (لاش کے مختلف اعضاء کاٹنے) سے منع فرماتے تھے) مگر آج مثلہ داعش کا روزمرہ کا عمل بن چکا ہے۔
زندہ جلانا بھی ان کا ایک خاص طریقہ ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایاہے:
عن أبي هريرة قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعث، فقال: "إنْ وجدتم فلانا وفلانا فأحرقوهما بالنار”، ثم قال: "حين أردنا الخروج إني أمرتُكم أن تُحرقوا فلانا وفلانا، وإن النار لا يعذب بها إلا الله، فإنْ وجدتموهما فاقتلوهما”. (صحیح البخاري :۲۸۵۲)
ترجمہ: ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہم پر روانہ کرتے وقت فرمایا:
اگر فلاں اور فلاں کو پاؤ تو انہیں آگ میں جلا دو، پھر جب ہم روانہ ہونے لگے تو آپ نے فرمایا:”میں نے تمہیں فلاں اور فلاں کو جلانے کا حکم دیا تھا، لیکن آگ سے عذاب دینا صرف اللہ کا حق ہے، اگر انہیں پاؤ تو صرف قتل کرو۔ (صحیح بخاری، ۲۸۵۲)
مشہور علماء جیسے ابن عبد البرؒ او صنعانیؒ نے مثلہ کی حرمت پر امت کا اجماع نقل کیا ہے، مگر داعش جیسی خودساختہ "اسلامی ریاست” قائم کرنے والے ان اجماعی احکام کو کھلم کھلا پامال کرتے ہیں۔ یہ محض ایک معاملہ نہیں، بلکہ کئی معاملات اور مسائل میں امت کے اجماعی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ تکفیر ان میں سب سے نمایاں ہے، جہاں یہ گروہ کبیرہ گناہ کے مرتکب کو بھی کافر قرار دیتا ہے، جو کہ جمہور امت کے متفقہ اصولوں کے خلاف ہے۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مثلہ اور قیدیوں پر ظلم وہ کفار کے ساتھ نہیں کرتے، بلکہ صرف ان مسلمانوں کے ساتھ جو مغرب کے لیے خطرہ شمار ہوتے ہیں۔
یہ بالکل ان لوگوں کے مصداق ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’یقتلون أهل الإسلام، و یدعون أهل الأوثان‘‘ (صحیح البخاري:۳۱۶۶)
ترجمہ: یہ لوگ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور مشرکوں کو چھوڑدیتے ہیں۔
خلاصہ:
داعش جو کچھ بھی جہاد کے نام پر کر رہی ہے، وہ دراصل اغیار کی منصوبہ بندی ہے۔ ان کا کوئی بھی جنگی طرزِ عمل جہاد کے اصولوں کے مطابق نہیں۔ انہوں نے جہاد کے تمام ضوابط پامال کیے ہیں۔
جہاد وحشت کا نام نہیں، جیسا کہ داعش کر رہی ہے؛ جہاد کفار کے خلاف ہوتا ہے، مگر یہ گروہ ہمیشہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بناتا آیا ہے۔