مغربی ہتھیاروں کی آزمائش کا میدان!
پہلی نظر میں، داعش جیسا مکروہ گروہ صرف ایک انتہا پسند اور ظالم تنظیم نظر آتی ہے، جس نے اپنی درندہ صفت کارروائیوں کے ذریعے اسلام اور اس کی مبارک تعلیمات کو بدنام کیا اور شام، عراق اور دیگر کئی اسلامی ممالک میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو یا تو قتل کیا، یا انہیں بے گھر کر دیا۔
لیکن اگر اس خبیث گروہ کا گہرا تجزیہ کیا جائے، تو ایسے حیران کن حقائق سامنے آتے ہیں جن میں عالمی طاقتوں، خصوصاً مغربی طاقتوں کے کردار کے واضح آثار محسوس ہوتے ہیں؛ کہ کس طرح انہوں نے داعش کی تشکیل، تقویت، اور حتیٰ کہ اس سے فائدہ اٹھانے کے مراحل میں کردار ادا کیا۔
ان پوشیدہ مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مغرب داعش کو ایک بالواسطہ جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرے؛ یہ گروہ، جس میں خوارج کے فکری تسلسل کی گہری جھلک نظر آتی ہے، ایک ایسا میدان بن گیا جہاں مغرب نے اپنے نئے اور جدید ہتھیاروں جیسے اسمارٹ میزائل، حملہ آور ڈرونز، الیکٹرانک جنگی آلات، اور تجرباتی ماڈلوں کو حقیقی جنگی ماحول میں آزمایا۔
دوسرے الفاظ میں، مغرب نے داعش کو ایک تجرباتی آلے کے طور پر استعمال کیا، تاکہ اپنے ہتھیاروں کو ایک حقیقی میدان جنگ میں آزما سکے؛ ایسا میدان جہاں پر ممنوعہ ہتھیار بھی استعمال کیے گئے، لیکن دنیا خاموش رہی۔ کیوں؟ کیونکہ کفری دنیا کی پروپیگنڈا مشین نے داعش کے ابتدائی ظہور کے وقت اتنی وسیع اور خوفناک حکمت عملی اپنائی تھی کہ اگر اس گروہ کے خلاف ایٹم بم بھی استعمال کیا جاتا، تب بھی کسی طاقتور ملک کی طرف سے کوئی اعتراض نہ اٹھتا۔
بے شک، مغربی عسکری صنعتوں کے لیے کوئی لیبارٹری ایک حقیقی جنگی میدان کی جگہ نہیں لے سکتی؛ کیونکہ اگرچہ کسی میزائل کی دُرستگی یا حد فاصل کو لیبارٹری میں جانچا جا سکتا ہے، مگر یہ صرف ایک حقیقی میدان جنگ میں ہی سامنے آتا ہے کہ کوئی ہتھیار دباؤ، گرمی، گرد و غبار یا ایک متحرک دشمن کے خلاف کس حد تک مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
مغرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جھوٹے نعروں کے تحت اپنے فوجی شام اور عراق کی سرزمین پر بھیجے، لیکن اکثر مواقع پر یہ کارروائیاں متعلقہ حکومتوں سے کسی قسم کی ہم آہنگی کے بغیر کی گئیں؛ ایسی کارروائیاں جو اکثر اُن ہتھیاروں کے ذریعے انجام دی گئیں، جو اس سے پہلے دنیا کی کسی بھی سرکاری جنگ میں استعمال نہیں ہوئے تھے۔
جی ہاں! داعش کو بہانہ بنایا گیا، تاکہ مغربی ہتھیار آزمائے جا سکیں اور ساتھ ہی ساتھ بڑے پیمانے پر میڈیا کے ذریعے ان ہتھیاروں کی طاقت، دقت اور اثر انگیزی کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جائے۔
افغانستان میں MOAB بم (جسے بموں کی ماں بھی کہا جاتا ہے) کا استعمال ایک اور واضح مثال ہے، جہاں داعش کو ہتھیاروں کے تجربے کے لیے محض ایک بہانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ۱۳ اپریل ۲۰۱۷ کو امریکی فوج نے یہ ۱۰ ٹن وزنی بم افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے اچین نامی پہاڑی علاقے پر گرایا اور دعویٰ کیا کہ اس حملے سے داعش کے ٹھکانے تباہ کر دیے گئے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آج کے دور میں اسلحہ سازی دنیا کی سب سے بڑی اور منافع بخش صنعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ مگر وہ ممالک جو اسلحہ تیار کرتے ہیں، اپنی مصنوعات کی زیادہ فروخت کے لیے اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ دنیا کے سامنے اپنے ہتھیاروں کی طاقت اور اثر پذیری کو ثابت کریں۔
داعش کے خلاف جنگ ایک نایاب موقع تھا، جس نے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور حتیٰ کہ صہیونی کمپنیوں کو یہ سہولت فراہم کی کہ وہ اپنے جدید ہتھیاروں کی نمائش کریں، انہیں عملی طور پر آزمائیں، اور دنیا کے سامنے انہیں ’’ناقابلِ مقابلہ‘‘ مصنوعات کے طور پر متعارف کرائیں۔
ہر اس کارروائی کے بعد جو مغرب نے داعش کے خلاف انجام دی، تفصیلی ویڈیوز، تصاویر اور معلومات جاری کی گئیں، جن میں ڈرون حملے، سمارٹ بموں اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا؛ یہ سب کچھ اُن ممالک کے لیے ایک مؤثر اشتہاری بروشر کی حیثیت رکھتا تھا جو اسلحہ خریدنے کے خواہاں تھے۔
مگر اس سب کی سب سے بڑی قیمت عام اقوام نے چکائی، بالخصوص مسلم اقوام نے؛ کیونکہ داعش انہی اسلامی ملکوں سے ابھری، مگر بین الاقوامی خفیہ اداروں کی مدد، پراسرار پالیسیوں اور تخریبی حکمت عملیوں کے نتیجے میں اتنی طاقتور ہوئی کہ اس جنگ کی آگ نے اسپتالوں، مساجد، اسکولوں، تاریخی آثار اور غریب عوام کے گھروں کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا۔
اس تحریر سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ داعش محض ایک انتہا پسند تنظیم نہیں تھی؛ بلکہ یہ ہتھیاروں کی آزمائش، مغربی سیاسی اثر و رسوخ کے فروغ، اور عسکری ساز و سامان کی فروخت بڑھانے کے لیے ایک آلہ کار بن چکی تھی۔