امداد کی چوری!
داعشی گروہ نہ صرف اپنے عسکری اور فکری عسکری مقاصد کو ہتھیاروں اور تشدد کے ذریعے آگے بڑھاتا ہے بلکہ اس نے انسانی اور امدادی وسائل کو بھی سیاسی اور مالی مقاصد کے لیے غلط استعمال کیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں کئی معتبر بین الاقوامی رپورٹس (مثلاً اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک WFP، فرانس 24، بی بی سی اور دیگر ذرائع ابلاغ) نے یہ واضح کیا ہے کہ داعش نے انسانی امداد کی تقسیم کے دوران نہ صرف امداد چرائی ہے بلکہ ان پر اپنے نشان لگا کر، ان کو اپنے نام سے ضرورت مند افراد میں تقسیم کیا ہے۔
جبکہ انسانی امداد کا مقصد مستحق افراد کی جانیں بچانا ہوتا ہے، داعش نے ان امدادوں کو اپنے زیرِ اثر علاقوں پر کنٹرول، لوگوں کو اپنے اثر و رسوخ میں لانے اور اپنے مالی وسائل کی فراہمی کے لیے ایک ہتھیار بنا دیا ہے۔ یہ عمل نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ امدادی اداروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور عالمی انسانی نظام کو بدنام کرنے کی ایک کوشش بھی سمجھی جاتی ہے۔
اس حصے میں ہم داعش کی جانب سے خواراکی امداد کی چوری، اس کے غلط استعمال اور اس کے پیچھے چھپے ہوئے اسٹریٹجک مقاصد کا جائزہ لیں گے اور ان بین الاقوامی ذرائع کی روشنی میں اس کا تجزیہ کریں گے جنہوں نے اس مسئلے کو مستند انداز میں بیان کیا ہے۔
۱۔ اقوامِ متحدہ کی تشویش:
سال ۲۰۱۵ میں اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک (WFP) نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ان کی خوراکی امداد کو داعش نے چوری کیا، ان پر لگے ہوئے اصل نشانات ہٹا دیے گئے اور ان پر داعش کے نشانات لگا کر یہ امداد تقسیم کی گئی۔ اس امداد کی تقسیم کا اصل مقصد داعش کی حمایت حاصل کرنا اور خود کو بااختیار اور شرعا قانونی حیثیت ظاہر کرنا تھا۔ اسی نوعیت کی رپورٹس BBC نیوز اور فرانس ۲۴ آبزرورز نے بھی شائع کی ہیں۔
۲۔ انسانی امداد کے غلط استعمال سے متعلق Business Insider کی رپورٹ:
اس ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ داعش کو امداد کی تقسیم پر مکمل کنٹرول حاصل تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ تمام امداد ان کے ذریعے تقسیم ہو۔ اگر کسی امدادی پیکٹ پر کسی دوسری تنظیم کا نشان ہوتا، تو وہ اس پیکٹ کی تقسیم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ امداد کی تقسیم کا پورا کریڈٹ داعش کو ملے اور وہ عوام کی حمایت حاصل کر سکیں۔
۳۔ امداد کی ترسیل کے بدلے جبری رقوم کی وصولی:
داعش نے بین الاقوامی امداد کی ترسیل کے دوران امدادی اداروں سے جبراً رقوم وصول کیں۔ یہ رقم وہ بظاہر نقل و حمل کے اخراجات یا دیگر ایسے ناموں سے لیتے تھے، مگر درحقیقت یہ بھتہ خوری تھی۔ یہ رقوم داعش کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ شمار ہوتی تھیں۔
امداد کی چوری کے پیچھے داعش کے اسٹریٹجک مقاصد:
۱۔ مالی وسائل کا حصول:
داعش نے امدادی اشیاء کو بیچ کر اپنے مالی وسائل کو تقویت دی اور اسی طریقے سے انہوں نے لاکھوں ڈالر کی آمدنی حاصل کی۔
۲۔ مالی وسائل کا متبادل ذریعہ:
جنگی حالات یا دشمن کی سخت نگرانی میں جب براہ راست مالی معاونت ممکن نہ ہو، تو ایسے وقتوں میں داعش نے انسانی امداد کو ایک غیر رسمی آمدنی کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے منی لانڈرنگ (پیسوں کو قانونی شکل دینا) جیسے طریقوں سے فائدہ اٹھایا۔ (منی لانڈرنگ کی تفصیل ان شاء اللہ آنے والے حصوں میں مکمل طور پر بیان کی جائے گی۔)
۳۔ اثر و رسوخ میں اضافہ:
داعش عام طور پر چوری شدہ امداد اپنی زیرِ اثر علاقوں کے محتاج لوگوں میں، اپنے نشان لگا کر، اس غرض سے تقسیم کرتی تھی تاکہ عوام کو یہ تاثر دے سکے کہ وہ ان کی خدمت کر رہی ہے۔ اس طرح وہ عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔
۴۔ تشہیری فائدہ:
داعش چوری شدہ امداد کی تقسیم کی ویڈیوز شائع کرتی تھی، جن میں ان کے جنگجوؤں کو امداد تقسیم کرتے ہوئے دکھایا جاتا تھا۔ یہ ویڈیوز ان کی تشہیری مہم کا حصہ تھیں، جنہیں وہ عوامی حمایت حاصل کرنے اور اپنی نام نہاد قانونی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔