پچھلے حصے میں ہم نے ابو قتادہ نامی ایک جرمن داعشی کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں، نیز اس کی زبانی داعش کے بارے میں کچھ بیانات بھی لکھے تھے۔ صحافی اور مصنف یورگن ٹوڈن ہوفر (Jürgen Tudenhofer) نے ابو قتادہ سے رابطے کے دوران شام جانے اور داعش اور اس کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔
ٹوڈن ہوفر کو داعش کے رہنما کی جانب سے ایک اجازت نامہ موصول ہوا، جس کی بنیاد پر وہ ترکی سے ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں آزادانہ طور پر داخل ہو گیا، وہاں پہنچنے کے بعد، وہ ابو قتادہ اور اس کے چند ساتھیوں کے ساتھ ملا تاکہ دس دن کے طے شدہ منصوبے کے مطابق مختلف علاقوں کا دورہ کرے اور بغیر کسی سنسرشپ کے اپنی رپورٹس تیار کرے۔
سفر کے دوران وہ کئی داعشی ارکان سے ملا جنہوں نے اسے شدید دھمکیوں کے ساتھ ساتھ قتل کی دھمکی بھی دی، مزید یہ کہ اسے کمرے سے باہر آزادانہ گھومنے کی اجازت نہیں دی گئی، جب تک کہ اس کے ساتھ داعشی موجود نہ ہوں۔ ٹوڈن ہوفر کی جانب سے کھینچی گئی تمام تصاویر اور انٹرویوز کی بعد میں نظر ثانی کی گئی جس کے بعد ان میں سے کچھ تصاویر اور ایک انٹرویو حذف کر دیا گیا، یہ وہ مواد تھا جو داعش کی اصل مکروہ تصویر کو ظاہر کرتا تھا۔
ابوقتادہ داعشی اپنے تکفیری عقیدے کے مطابق، طالبان کے بارے میں بہت غلط خیالات رکھتا تھا اور ملا محمد عمر مجاہد کے بارے میں غلط الزامات لگاتا تھا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ان کے عقائد ونظریات اسلامی نہیں تھے، اس قسم کی باتیں داعش کے نظریات میں اس لیے شامل ہیں کیونکہ داعشی صرف اپنی ہی جنگ کو "جہاد” اور اپنی ہی تحریک کو "اسلامی” کہتے ہیں، اور اسی بہانے سے وہ کسی دوسری صحیح جہادی تحریک کو برداشت نہیں کرسکتے، یہی فتنے اور انتہاپسندی کی حد ہے، جہاں صرف وہ خود کو صحیح سمجھتے ہیں اور دوسری تمام تحریکوں اور طریقوں کو مسترد کرتے ہیں۔
داعشی فتنہ پرور گروہ اپنی صف اور نظریے سے باہر نکلنے والے مسلمانوں کوکافر قرار دیتے ہیں، انہیں موت کی سزا دیتے ہیں اور چونکہ وہ ان سے الگ ہو چکے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں مرتد سمجھتے ہیں۔ ابو قتادہ کا عقیدہ ہے کہ تمام داعشی جنہوں نے اس گروہ سے علیحدگی اختیار کی، وہ مرتد ہیں اور اگر وہ توبہ نہیں کرتے تو انہیں قتل کی سزا دی جائے گی۔
داعشی اپنی صفوں میں اتنے کم عمر لڑکوں سے جنگ میں کام لیتے اورانہیں بھرتی کرتے ہیں جو ابھی تک اچھے اور برے کے درمیان تفریق نہیں کر سکتے، ٹوڈن ہوفر اپنے سفر کے چوتھے دن ابو قتادہ اور اس کے ساتھیوں سمیت موصل شہر کی جانب روانہ ہوا۔ راستے میں ابو لوط نامی ایک داعشی صحافی جنگوں اور داعش کی ملیشیا کے بارے میں کہانیاں سناتا رہا، اس نے بتایا کہ داعش کا ایک کم عمر جرمن جنگجو ۱۶ سالہ طالب علم تھا، جو یہاں شامی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا گیا۔
یہ داعش کی صفوں میں شامل کم عمر جنگجوؤں کی صرف ایک مثال ہے اور شامی فوج اور پولیس کے پاس ایسے کم عمر جنگجوبہت زیادہ تھے، اس حوالے سے ابو لوط داعش کی صفوں میں دوسرے داعشیوں کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ بوراک نامی ایک جرمن جنگجو بھی تھا، جو جرمنی کی قومی فٹ بال ٹیم کا ایک کھلاڑی تھا، ایک جنگجو ٹیکساس، امریکہ سے بھی تھا، جس کا والد فوج میں تھا۔ ابو لوط نے یہ بھی بتایا کہ بعض عرب اسرائیلی جو اسرائیلی پاسپورٹ رکھتے ہیں، بھی داعش کی صفوں میں جنگ کر رہے ہیں۔
ابو لوط داعش کی جانب سے موصل کو فتح کرنے کے بارے میں صحافی کو وضاحت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ موصل کو فتح کرنے کے لیے کاروائیاں پہلے سے تیار کی گئی تھیں، ہم نے موصل میں اتنے خودکش حملے کیے کہ یہاں کسی کو بھی اب امن کا احساس نہیں رہا، یہاں تک کہ ہم اپنے ساتھیوں کو ختم قرآن کی تقریبات میں بھی خودکش حملوں کے لیے بھیج دیتے تھے۔
ٹوڈن ہوفر کا دس دنوں کا یہ سفر جو ۶ دسمبر ۲۰۱۴ء کو شروع ہوا تھا، ایک کتاب میں درج کیا گیا ہے، اس کتاب میں داعشی فتنے کے بارے میں جو اہم پہلو بیان کیے گئے ہیں، ان کو ہم نے چار حصوں میں بطور خلاصہ پیش کر دیا ہے۔ در حقیقت داعش اور اس کی سرگرمیاں اتنی زیادہ بھیانک ہیں کہ اس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔